مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کا تعلق ایندھن کی قیمتوں پر بھی ہوتا ہے جس میں بجلی کے گھریلو و صنعتی صارفین کیلئے قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عام آدمی کو دو طریقوں سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو اُسے خود مہنگی بجلی خریدنا پڑتی ہے اور دوسرا اُسے اشیا‘ اجناس اور خدمات کی بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور یوں ایندھن کی قیمتیں دو دھاری تلوار کی طرح عام آدمی کو لہولہان کئے ہوئے ہیں۔ خوش آئند تھا کہ گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اضافے کے بعد واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی 10 تقسیم کار کمپنیوں کے صارفین کیلئے مارچ دوہزاراکیس سے ماہانہ ایندھن کی لاگت کی ایڈجسمنٹ کے تحت بجلی کے نرخوں میں اکسٹھ پیسے فی یونٹ کمی کا امکان ظاہر کیا گیا اور اِس سلسلے میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے نرخوں میں کمی کی درخواست پر عوامی سماعت کیلئے تاریخ مقرر کی اور ریگولیٹر سے منظوری ملنے کے بعد ایندھن کی کم لاگت کو صارفین کے مئی کے بلز میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بہتر توانائی کے مرکب کا فائدہ صارفین کو پہنچانے کیلئے اکسٹھ پیسے فی یونٹ کمی کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے بجلی کی کمپنیاں خود ہی نرخوں میں کمی کی درخواست کر رہی ہیں۔ ایندھن کی لاگت پر نرخوں کی کمی گزشتہ برس ہونی تھی لیکن حکومت نے قیمتیں تین سہ ماہیوں تک تبدیل نہیں کیں۔ ریگولیٹر سے منظوری ملنے کے بعد بجلی کے نرخوں میں کمی تین سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے اور زرعی صارفین کو فائدہ نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ پہلے ہی سبسڈائز نرخوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ساتھ ہی نرخوں میں اس کمی کا اطلاق کے الیکٹرک کے صارفین پر بھی نہیں ہوگا۔ سی پی پی اے نے مارچ میں صارفین سے ریفرنس فیول ٹیرف کے لئے پانچ روپے بتیس پیسے فی یونٹ وصول کئے جبکہ ایندھن کی لاگت پانچ روپے اکسٹھ پیسے فی یونٹ تھی لہٰذا اکسٹھ پیسے فی یونٹ کو صارفین کے آئندہ ماہ بجلی کے بلز میں ایڈجسٹ کرنے کی درخواست کی گئی۔ مارچ میں تمام ذرائع سے بجلی کی پیداوار آٹھ ہزار نوسو پینسٹھ گیگا واٹس آور ریکارڈ کی گئی جس کی لاگت پانچ روپے پچپن پیسے فی یونٹ کی اوسط قیمت پر اُنچاس ارب ستر کروڑ روپے تھی۔اس میں سے آٹھ ہزار چھ سو چودہ گیگا واٹس آور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پانچ روپے اکسٹھ پیسے فی یونٹ کے اوسط نرخ پر اڑتالیس ارب سینتیس کروڑ روپے میں دیئے گئے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پن بجلی کی پیداوار نے مجموعی توانائی کے مرکب میں اُنیس اعشاریہ چار فیصد شامل کئے جس کی مقدار جنوری میں تیرہ فیصد اور فروری میں اٹھائیس فیصد تھی اور اس کے نتیجے میں مارچ کے دوران کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کا حصہ معمولی اضافے کے ساتھ ساڑھے تیس فیصد رہا جو جنوری میں بتیس اور فروری میں چھبیس فیصد تھا۔ ٹیرف میکانزم کے تحت ایندھن کی لاگت میں ہونے والی تبدیلیوں کو ایک خودکار طریقہ کار کے تحت ماہانہ بنیاد پر صارفین کو منتقل کیا جاتا ہے۔حکومت نے مالی سال دوہزاربیس اکیس میں اپنی آمدنی پورا کرنے اور سابق واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کیلئے دس کھرب روپے سے زائد اضافی ریونیو جمع کرنے سے متعلق اقدامات کے تحت بجلی کے نرخوں میں اضافے کا عمل شروع کیا۔ رواں مالی سال کیلئے سالانہ ایڈجسٹمنٹ‘ تقسیم کے مارجن کے اشاریئے اور چند بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیوں کے ساتھ معاہدوں کی مد میں یہ اضافہ کیا جارہا ہے۔اس عمل کے ایک حصے کے طور پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے فیصل آباد‘ لاہور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی تین بڑی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے ٹیرف میں اضافے کی درخواستوں پر عوامی سماعت کی۔ سماعت کے دوران نیپرا کے کیس افسران نے بتایا کہ تینوں ڈسکوز فیسکو‘ لیسکو اور آئیسکو نے توانائی چارجز‘ صلاحیت کے چارجز‘ سسٹم کے استعمال کے چارجز‘ سالانہ آپریشن اور بحالی کے اخراجات‘ ریگولیٹری اثاثے پر ریٹرنز‘ پہلے سال کی ایڈجسٹمنٹ اور مجموعی تقسیم کے مارجن کے حساب سے 677ارب روپے کی مجموعی ایڈجسٹمنٹ طلب کی ہیں۔سماعت میں بتایا گیا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے 366ارب روپے‘ فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) نے 269ارب روپے اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) نے بیالیس ارب بیس کروڑ روپے کی ایڈجسٹمنٹ طلب کی۔ فیسکو کے نمائندے نے ریگولیٹر کو بتایا کہ صلاحیت کی ادائیگی کی رقم توانائی کے معاوضوں سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ریگولیٹر سے کمپنی کے مالی خلا کو پورا کرنے کیلئے مناسب ایڈجسٹمنٹ کی درخواست کی۔ دیگر دو ڈسکوز کے نمائندوں نے بھی اپنی درخواستوں کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ایڈجسٹمنٹ مالی تقاضوں کے مطابق اور طے شدہ پالیسی کے بینچ مارک کے مطابق تھی۔ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی‘ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی‘ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی جیسے دیگر ڈسکوز کی درخواستوں پر آئندہ ہفتوں میں سماعت ہوگی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے مطابق اور سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کے تحت دسمبر2022ء تک صارفین کیلئے فی یونٹ چار سے پانچ روپے اضافے کو منظور کیا جائے گا۔ ٹیرف میکانزم کے تحت صارفین کو ایندھن کی لاگت میں تبدیلیاں خود کار طریقے سے صرف ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں جبکہ بجلی کی خریداری کی قیمت‘ صلاحیت کے چارجز‘ متفرق و متغیر آپریشنز اور بحالی کے اخراجات‘ سسٹم کے استعمال کے چارجز اور ترسیلی (ٹرانسمیشن) نظام اور تقسیم کے نقصانات کے اثرات کے حوالے سے سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر اخراجات بھی وفاقی حکومت بجلی کی بنیادی قیمت (بیس ٹیرف) میں شامل کرتی ہے۔ بجلی پر وصول کئے جانے والے ٹیکس اور اخراجات اِس کی قیمت سے زیادہ ہو چکے ہیں اور کوئی بھی صارف استعمال شدہ بجلی سے زیادہ دیگر مدوں میں ادا کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی لانے کا ایک طریقہ ایندھن کی قیمتوں میں استحکام اور اِن کے حقیقی تعین کا بھی ہے کیونکہ مہنگی سے مہنگی بجلی عام آدمی کی قوت خرید پر دباؤ اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔