پاکستان اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان 2 ٹیسٹ میچوں کی سریز کے پہلے میچ کا آغاز ہوچکا ہے جو تین مئی جاری رہے گا جبکہ دوسرا ٹیسٹ سات مئی سے گیارہ مئی تک،یہ مقابلے دونوں ٹیموں کیلئے آسان نہیں ہوں گے کیونکہ کرکٹ کے کھیل میں ریکارڈز (ماضی) کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ ٹیم گرین ماضی سے چھٹکارا جبکہ زمبابوے ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کے خلاف اپنے ماضی کی فتوحات کو ساتھ لئے کھیلنا چاہتا ہے۔ یادش بخیر سال 2013 کے دوران جب ٹیم گرین زمبابوے کے دورے پر تھی اور تب مصباح الحق ٹیسٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ پاکستان دو میچز کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ جیت چکا تھا اور دوسرا میچ ہرارے سپورٹس کلب میں کھیلا جا رہا تھا۔چوتھی اننگز میں چھوٹے سے ہدف کا تعاقب بھی بسااوقات ڈرامائی صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس میچ کی چوتھی اننگز میں بھی ہوا جہاں ایک اینڈ تو مصباح الحق نے سنبھالے رکھا مگر دوسری طرف سے مسلسل وکٹیں گرتی گئیں تاآنکہ مصباح اکیلے رہ گئے اور پاکستان ہدف سے تھوڑا سا پیچھے رہ گیا۔ یہ طویل ترین فارمیٹ میں زمبابوے کی پاکستان کے خلاف تیسری فتح تھی اور مصباح الحق کی ٹیم کے لئے ایسی شکست کہ جسے کوئی بھی زیادہ دن یاد نہیں رکھنا چاہتا تھا مگر ایسے تکلیف دہ لمحات بھلا کب حافظے سے محو ہوتے ہیں! زمبابوے کرکٹ کے لئے یادگار لمحوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایک تگڑی ٹیسٹ ٹیم کے خلاف وہ سیریز برابر کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ زمبابوے کے موجودہ ٹیسٹ سکواڈ میں سے برینڈن ٹیلر وہ واحد کھلاڑی ہیں جو اس میچ کا حصہ تھے۔ اِس وقت زمبابوے کے ڈریسنگ روم میں یقینا فتح کی یادوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہو گی اور اسی حوصلہ افزائی کے سامان میں شان ولیمز بھی چاہ رہے ہوں گے کہ اپنی کپتانی میں وہ بھی کوئی ایسا لمحہ تخلیق کر پائیں جو ان کے شائقین برسوں یاد رکھیں۔ دوسری جانب پاکستانی کیمپ میں اگرچہ حالیہ افریقی دورے کی متواتر فتوحات ایک حوصلہ افزا امر ہیں مگر ٹیسٹ کرکٹ کے حوالے سے اس ٹیم کو ابھی بہت کچھ ثابت کرنا باقی ہے کیونکہ مصباح الحق کے کوچنگ سنبھالنے کے بعد سے اب تک پاکستان کسی غیر ملکی دورے پہ کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈز پر ٹیسٹ سیریز کی جیت بہت بڑی کامیابی تھی مگر کچھ روز پہلے مصباح الحق یہ کہتے سنائی دیئے کہ اب انہیں اس ٹیم کو غیر ملکی کنڈیشنز میں جیت کی عادت ڈالنا ہے۔ گو زمبابوے کسی بھی لحاظ سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ یا برطانوی جیسی مشکل حریف ٹیم نہیں مگر بابر اعظم کی ٹیم گرین یقینا اس دباؤ میں ہو گی کہ اب کی بار پھر کوئی ویسی انہونی نہ ہو جائے جو حالیہ ٹی ٹونٹی سیریز کے دوسرے میچ میں ہوئی تھی یا دوہزارتیرہ کے مذکورہ دورے کے دوران ہوئی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں اگرچہ پاکستان فتح یاب ٹھہرا مگر کئی سوال پھر بھی تشنہ جواب رہ گئے۔ ڈیبیو سیریز پہ دھواں دھار انٹری دینے والے عابد علی اگرچہ مستقل اس ٹیم کا حصہ ہیں لیکن پہلی سیریز کے بعد کے سبھی میچز میں ان کی پرفارمنس اوسط درجے کی رہی۔ ٹیم گرین کے مڈل آرڈر میں اتنا دم خم تو ہے کہ وہ ٹاپ آرڈر کی ناکامی کا ازالہ کر سکتا ہے مگر عابد علی کو یہاں اپنی ہستی کا جواز دینے کی اشد ضرورت ہو گی۔ ہرارے کی وکٹ عموماً سست رہتی ہے‘ جس کی وجہ سے میچ میں چلتے چلتے یہ سپنرز کے حق میں پانسہ ضرور پلٹے گی۔ پاکستان کی جانب سے دو سپنرز کو کھلائے جانے کا امکان ہے چونکہ یاسر شاہ اس سیریز میں دستیاب نہیں ہیں سو ہمیں نعمان علی کے ہمراہ زاہد محمود ڈیبیو کرتے نظر آ سکتے ہیں۔ بھلے ٹیسٹ کرکٹ کے وسیع تر تناظر میں یہ سیریز بہت زیادہ اہم نہیں ہے مگر پاکستانی ڈریسنگ روم کیلئے پھر بھی یہ بہت خاص ہو گی کہ بالآخر یہی وہ موقع ہے جہاں سے وہ گھر کے باہر بھی ٹیسٹ جیتنے کی عادت اپنا سکتے ہیں۔