امریکہ ہرسال دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں انسانی حقوق اور آزادیوں کی حالت پر ایک رپورٹ شائع کرتا ہے۔ اس کے جواب میں 2013 سے چین بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی حالت پررپورٹ شائع کرتا رہا ہے۔ پچھلے مہینے کے آخری ہفتے میں عوامی جمہوریہ چین کے ریاستی کونسل اطلاعاتی دفترنے امریکہ میں 2020 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر 18 صفحات پر مشتمل تازہ ترین رپورٹ شائع کردی ہے۔واضح رہے امریکی محکمہ خارجہ اپنی انسانی حقوق کی رپورٹوں میں چینی حکومت پر غیر قانونی ہلاکتوں، جبری گمشدگی، تشدد، من مانی نظربندی، سخت اور جان لیوا قید و بند، سیاسی قیدیوں بدسلوکی، انصاف میں ہیرا پھیری، سول سوسائٹی کے ممبروں پر حملہ، سنسرشپ، مذہبی آزادی پر پابندی اور ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات لگاتی ہے۔ چین اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور جھوٹا پروپیگنڈا قرار دے کرمسترد کرتا آیا ہے۔بیجنگ میں واقع دفتر کی رپورٹ میں خود امریکی اور مغربی ماہرین، سرکاری اہلکاروں، تھنک ٹینکس اور مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ رپورٹس کی بنیاد پر امریکہ میں کورونا وبا کے دوران حکومت کی غفلت، مسلح تشدد، امریکہ میں نسلی امتیاز، منافرت اور سماجی ناانصافی کی مثالیں دے دے کر امریکہ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ کے آغاز میں ”میں سانس نہیں لے سکتا“ کے الفاظ ہیں۔ یہ سیاہ فام جارج فلائیڈ نے کہے تھے جو ایک امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں گرفتاری کے وقت گردن دبوچے جانے سے ہلاک ہوگئے تھے اور جن کی موت کے بعد امریکہ کے طول وعرض میں بڑے مظاہرے ہوئے تھے۔رپورٹ میں کورونا وائرس پر امریکی حکومت کے طرزعمل پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ امریکہ خود کو سب سے اعلیٰ اور معیاری نظام حکومت کا حامل سمجھتا ہے مگر کورونا وائرس بارے اس کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی، لاپرواہی اورسست رفتارردعمل کی وجہ سے یہ وبا قابو سے باہراورایک انسانی المیے میں تبدیل ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ، جس کی آبادی دنیا کی 5 فیصد سے بھی کم ہے، میں فروری 2021 تک کورونا متاثرین اور اموات باالترتیب دنیا کی کل تعداد کا پچیس فیصد اور بیس فیصد رہیں۔ اب تک 28 لاکھ افراد وبا کا شکار اور پانچ لاکھ سے زیادہ امریکی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو دنیا میں کسی بھی ایک ملک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے شہروں کو بند کرنے میں بہت تاخیر کی مگر پھر مالی مفادات کی خاطر کاروباراورشہر قبل ازوقت کھولنے میں بڑی جلدبازی دکھائی۔ رپورٹ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا وائرس کے خطرناک ہونے بارے ماہرین کی رپورٹوں کو یکسر نظرانداز کرنے اوروائرس کو ایک عام زکام قرار دینے کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ کہ غفلت اور نااہلی پر مبنی رد عمل کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ حکومت کی بے عملی کی وجہ سے وبائی امراض پھیل گئے جس نے نسلی اقلیتوں، بوڑھوں، غرباء، تارکین وطن، بچوں اور قیدیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان غیر سفید فام اقوام کو ہوا۔ کورونا سے متاثرہونے، ہسپتال میں داخلے اور مرنے کی شرح افریقی امریکیوں میں سفید فاموں کے مقابلے میں بالترتیب تین گنا، پانچ گنا اور دگنا زیادہ رہی۔ امریکہ خود کو مثالی جمہوریت سمجھتا ہے مگر اس کے جمہوری اداروں میں سیاسی بدنظمی اور معاشرتی انتشار نے جنم دیا۔ دولت پر مبنی سیاست سے عوام کی رائے مسخ اوردب گئی، انتخابات دولت مند طبقے کا ”ون مین شو“ بن گئے۔ پچھلے صدارتی اور کانگریسی انتخابات پر چود ارب ڈالر خرچ ہوئے جو 2016 سے دو گنا زیادہ ہیں۔ امریکی انتخابات بنیادی طور پر جھوٹ اور دولت کے استعمال کا کھیل بن گئے ہیں۔ چنانچہ امریکہ کے عوام برائے نام سیاسی و سماجی حقوق رکھتے ہیں، امریکی جمہوری نظام پر لوگوں کا اعتماد 20 سالوں میں کم ترین سطح پرآگیا۔ گیلپ سروے کے مطابق صرف انیس فیصد امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج پر پورا اعتماد رکھتے ہیں۔ نفرت انگیز سیاست ایک قومی طاعون کی شکل اختیار کرگئی اورانتخابات کے بعد پرامن انتقال اقتدارمشکل ہوگیا یہاں تک کہ دارالحکومت پر حملہ تک ہوگیا۔ امریکہ وہ سب کچھ کرنے لگا جو دوسرے کریں تو وہ ان پر تنقید کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک لبنانی سفارت کار محمد صفا نے اس پر یوں تبصرہ کیا ”اگر امریکہ یہ دیکھتا کہ امریکہ امریکہ میں کیا کررہا ہے تو امریکہ کو ظلم و ستم سے آزاد کرنے کیلئے امریکہ اب تک امریکہ پر حملہ کرچکا ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں نسلی اقلیتی گروہوں کو منظم، جامع اور مستقل طور پر پورے ملک میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مشکل صورتحال میں تھے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے سترہ جون 2020 کو اپنے تریتالیسویں اجلاس میں پہلی بار امریکہ میں نسلی منافرت پر بحث کی اورعالمی برادری نے امریکہ پر سخت تنقید کی۔ نسلی امتیاز کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی کمیٹی اور نسلی امتیاز، عصری نسل پرستی اورعدم رواداری پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے امریکی میں نسلی امتیازکو خوفناک قرار دیا۔ امریکہ میں ہندوستانی امریکی، ایشیائی امریکی، افریقی امریکی اور لاطینی امریکی جیسی اقوام نسلی منافرت کا شکار ہیں اور انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ غیر سفید فام افراد امریکہ کی آبادی کا 13 فیصد ہیں مگر وہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کا 28 فیصد تھے۔ غیر سفید فام افراد 18 سال سے کم عمر والے امریکیوں کا تقریباً ایک تہائی ہیں لیکن وہ ملک کے تمام نابالغ قیدی بچوں کا دو تہائی ہیں۔ افریقی امریکیوں کو گورے بچوں کے مقابلے میں وائرس لگنے کا تین گنا، اس سے ہلاک ہونے کا دو گنا اور پولیس کی جانب سے مارے جانے کا تین گنا زیادہ امکان ہے۔ ہرچار میں سے ایک نوجوان ایشیائی امریکی نسلی غنڈہ گردی کا نشانہ رہا ہے۔ پچھلے سات سالوں میں سیاہ فاموں کے ساتھ پیش آنے والے 98 فیصد تشدد کے واقعات میں پولیس افسران پر فرد جرم ہی عائد نہیں کی گئی۔ امریکہ میں مختلف نسلی گروہوں کے مابین عدم مساوات بڑھ گئی۔ ایک اوسط سفید فام خاندان سیاہ فام خاندان سے 41 گنا اور لاطینی امریکی خاندان سے 22 گنا زیادہ دولت رکھتا ہے۔ بیروزگاری بھی امریکہ کی غیر سفید اقوام میں سفید فام افراد سے دگنی ہے۔مزید تفصیلات اگلے کالم میں قارئین کی نذر ہوں گی۔