خود دار میرے شہر کا۔۔۔۔

راشن کی تقسیم تو بہت اچھی بات ہے۔مگر اس کو سرِ عام بانٹنے میں بعض مستحق ایسے بھی ہیں جو اپنے حیا شرم کے مارے خیرات لینے نہیں آتے۔ایسے میں تنظیموں کے بڑے ان کو گھر جا کر ان کے دروازے پر خیر خیرات کی اشیاء حوالے کر آتے ہیں۔کیونکہ جہاں ان غربا کو راشن مل جاتا ہے جو راشن پوائنٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔مگر وہ جو نہیں آ پاتے ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔اگر وہ راشن لینے سرِ عام آئیں تو محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہی نظروں سے گر جائیں گے۔لہٰذا اگلے کی عزتِ نفس کا خیال کر کے ان کو گھر کی دہلیز تک راشن پہنچا دیا جائے۔ علاقے میں رمضان کے علاوہ بھی اگر کہیں آٹے کی بوریاں تقسیم ہوں تب بھی یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ بعض محتاج ہوتے ہیں مگر عزت نفس کی خاطر باہر آکر دکان پرسے یا محلے دار کے پاس سے بوری آٹا نہیں اٹھا تے۔وہ یونہی حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔اس موقع پر صاحب لوگ آکر کیمرہ مینوں کے ہمراہ اپنے ہاتھوں سے یہ فرض ادا کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بعض مستحق یہ گرانٹ بھی نہیں لے پاتے۔ وہاں بڑے لوگوں کو اپنی تصویروں سے کام ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر وہ نیک ارواح بھی ہیں جو نہ صرف رمضان بلکہ سارا سال غریبوں اورمحتاجوں کو دیتے رہتے ہیں۔بڑے سلیقے سے ان غرباء کے گھروں میں ضرورت کا سامان پہنچاتے ہیں۔رمضان میں تو یہ خیر خیرات کا کام اپنی شد و مد کے ساتھ خفیہ یا اعلان کر کے کیا جاتا ہے۔ مگر روزوں کے علاوہ بھی فلاحی تنظیمیں اور نیک انسان سارا سال اس کام میں مصروف رہتے ہیں۔تنظیموں کو چلانے والے مالدار لوگ بھی اپنی حصہ داری چھپاتے ہیں اور تنہا تقسیم کرنے والے بھی اپنی شناخت کو پسِ پشت رکھتے ہیں۔یہی تو لوگ ہیں جن میں اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ محتاج کی مدد ہو اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔اصل میں یہ ہمارے ماحول ہی کا آئینہ ہے۔ خود ان میں ہم اپنے آپ کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے غربت خرید کر تو اختیار نہیں کی۔ کبھی حالات و واقعات ایک جیسے نہیں رہتے۔اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔سال کے سال قربانی کرنے والے کسی برس عید ِ قرباں پر جانور ذبح نہیں بھی کرتے۔ پھر اگلے سالوں میں بھی وہ اس قابل نہیں ہوپاتے۔ مگر پھر سے ان کو توفیق مل جاتی ہے اور وہ یہ نیک کام دوبارہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔مگر آج کل لاک ڈاؤن کا آوازہ ہے۔ لوگ کام کاج پر عالمی وائرس کے ہاتھوں کاروبار کے بند ہونے پر نہیں جا پا رہے۔ کسی سے پوچھو کام پر نہیں گئے۔وہ جواب دیتا ہے لاک ڈاؤن ہے ناں۔ حکومتی احتیاط کے کارن عام آدمی کی پوزیشن بہت زیادہ ڈاؤن ہو رہی ہے۔یہ لاک ڈاؤن کی الگ سی تباہ کاری ہے جو کورونا کی غارت گری کے سنگ سنگ چل رہی ہے۔۔ایسے ایسے شہری ہیں جوسینے میں ہمدر د دل رکھنے والے ہیں۔ فنکار ہیں تو فنکار برادری میں خراب حالوں کی احوال پرسی کرتے ہیں۔ جن میں خود خواتین بھی شامل ہیں۔ جو اپنے پلے سے بھی مدد کرتی ہیں اور اپنے صاحبِ حیثیت دوستوں واقف کاروں سے بھی لے کر دوسروں کی امداد کرنے کو اپنے اوپر روا کئے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک ان کا بھلا کرے ان کے بچے جیئیں۔ پھر مرد حضرات الگ ہیں۔ جو چوری چھپے اپنے ساتھیوں دوستوں اور رشتہ داروں کی امداد کرتے رہتے ہیں۔ جن کاپتا خود مدد لینے والوں کے ذریعے اگر لگ جائے تو لگے۔ وگرنہ خود مدد کرنے والے کبھی سامنے والے کی عزت کو تاراج نہیں کرتے۔ ایسے لوگو ں کو باری تعالیٰ اپنے دربار سے دیتا ہے۔ وہ لوگ کبھی خراب نہیں ہوسکتے۔