دنیا کے دیکھتے دیکھتے چین ایسا پہلا بڑا ملک بننے والا ہے جہاں کی حکومت ’ڈیجیٹل کرنسی‘ متعارف کرانے والی ہے جسے چین کا مرکزی بینک کنٹرول کرے گا۔ چین کی اِس مہم جوئی کا بڑا ہدف بنکاری سے استفادہ کرنے والے صارفین کی سہولت سے زیادہ دنیا میں امریکی معاشی بالادستی ختم کرنے کی کوشش ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہر جائز و ناجائز طریقے کا استعمال کرتے ہوئے ’ڈیجیٹل کرنسی‘ کے اِس نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے گی بالکل ویسے ہی جیسا کہ ’روڈ اینڈ بیلٹ انشی ایٹو (آر بی آئی)‘ اور ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے عالمی سازشیں آج بھی جاری ہیں!ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے کیلیے چین کو مقامی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے کافی مدد فراہم کی جارہی ہے۔ چین کی ایک بڑی ای کامرس کمپنی جے ڈی ڈاٹ کام نے چھبیس اپریل کو اعلان کیا کہ اس کی جانب سے عملے کے کچھ افراد کو تنخواہ کی ادائیگی ڈیجیٹل یوآن (جنوری دوہزار اکیس سے) کے ذریعے کی جارہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ چین کی جانب سے حالیہ مہینوں میں ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے متعدد تجربات کئے گئے ہیں۔ اکتوبر دوہزاربیس میں چین کے شہر شینزن میں ایک کروڑ یوآن مالیت کی ڈیجیٹل کرنسی پانچ لاکھ رہائشیں میں تقسیم کی گئی تھی تاکہ وہ مخصوص آن لائن اور آف لائن ریٹیلرز سے ڈیجیٹل یوآن سے خریداری کرسکیں بعد ازاں چین کے متعدد بڑے شہروں میں اس طرح کے پروگرامز پر کام کیا گیا تاہم وہاں کے رہائشیوں کو منتخب بینکوں میں ڈیجیٹل یوآن ملنے اور ادائیگیوں کیلئے اپلائی کرنا ہوگا۔ اس ڈیجیٹل کرنسی کیلئے چینی ریگولیٹرز‘ کمرشکل بینکوں اور ٹیکنالوجی سلوشن پرووائڈرز کی جانب سے مل کر کام کیا جارہا ہے بظاہر یہ پروگرام بالکل اسی طرح کا ہے جس طرح کاغذی یوآن چین میں گردش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کی نگرانی چین کا مرکزی بینک کررہا ہے جبکہ چین کے چھ بڑے کمرشل بینکوں کو ڈیجیٹل یوآن کو چھوٹے بینکوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں تقسیم کرنے کا کام سونپا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس نئی کرنسی کے استعمال کیلئے تیار کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر جے ڈی ڈاٹ کام نے ڈیجیٹل آمدنی کے ذخیرے کیلئے آئی سی بی سی نامی بینک سے شراکت داری کی ہے۔ یہ آن لائن کمپنی ان اولین اداروں میں سے ایک ہے جو چین میں ڈیجیٹل یوآن کے ذریعے ملازمین کو تنخواہیں فراہم کررہے ہیں۔ چین بھر میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے نئے نظام کی تشکیل کے سرگرم انداز سے کام کررہے ہیں‘ جس سے مرکزی حکومت کیلئے دولت کی گردش کو ٹریک کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر گیمنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ میں بڑا نام ”ٹینسینٹ (Tencent) ڈیجیٹل یوآن“ کے آپریٹرز میں شامل ہے‘ جو اس کے ڈیزائن ریسرچ و ڈویلپمنٹ اور آپریشنل ورک میں مدد فراہم کرے گا۔ جیک ما کے آنٹ گروپ کی جانب سے کاغذ کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی پر لوگوں کو منتقل کرنے کیلئے انفراسٹرکچر کی تیاری میں مرکزی بینک کے ساتھ کام کیا جائے گا۔ ہواوے نے بھی اپنے ایک سمارٹ فون ماڈل میں ایک ڈیجیٹل والٹ متعارف کرایا ہے جو صارفین کو ڈیجیٹل یوآن کو خرچ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈیجیٹل یوآن کی بدولت چینی حکومت بٹ کوائن کی کشش کاباعث بننے والے ایک اہم عنصر کی روک تھام بھی کرے گا یعنی صارف کا گمنام ہونا۔ ڈیجیٹل یوآن سے چینی حکومت کو رئیل ٹائم میں لوگوں کے اخراجات کو جاننے میں مدد ملے گی جبکہ یہ دولت اس عالمی مالیاتی نظام سے منسلک نہیں ہوگی جس میں ڈالر کو بالادستی حاصل ہے‘ جس سے امریکی طاقت کے ستون کو ہلانا ممکن ہوسکے گا۔ پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) کی جانب سے ڈیجیٹل یوآن پروگرام پر دوہزارچودہ سے کام کیا جارہا ہے یعنی اس وقت سے جب چین میں بٹ کوائن نے لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔ ڈیجیٹل یوآن کو کاغذی نوٹوں کے متبادل کے طور پر ڈیزائن کیا جارہا ہے اور یہ بینک اکاؤنٹس میں طویل المعیاد بنیادوں پر ڈیپازٹ رقوم کا متبادل نہیں۔ کمرشل بینکوں کی جانب سے صارفین میں ڈیجیٹل کرنسی کی تقسیم میں کردار ادا کیا جائے گا اور اس کے عوض انہیں اتنی ہی رقم اپنے ذخائر میں جمع کرانا ہوگی تاہم ڈیجیٹل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن کے برعکس ڈیجیٹل یوآن میں بلاک چین کو استعمال نہیں کیا جائے گا اور اسے لیجر ٹیکنالوجی کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چین عرصے سے اپنی کرنسی کو عالمی سطح پر ڈالر کے متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور ڈیجیٹل یوآن سے ممکنہ طور پر اِس مقصد میں مدد مل سکے گی جبکہ دیگر ممالک کے صارفین کو بھی یوآن کے استعمال کیلئے تیار کرنا ممکن ہوسکے گا۔ پاکستان کیلئے چین کے تجربات اور ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے جیسی پیشرفت کا شروع دن سے حصہ بننا چاہئے۔ سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کا یہی طریقہ سب سے زیادہ آسان اور قابل عمل ہے کہ چین کے تجربات اور آمادگی سے فائدہ اُٹھایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت چین کودنیا کے معاملات میں جو فوقیت حاصل ہے اس کا سلسلہ مستقبل میں دور تک جائیگا اور چاہے وہ معاشی نظام کی بات ہو یا پھر دفاعی معاملات ہر جگہ چین کا پلڑا بھاری رہے گا اسلئے یہ پاکستان کیلئے ایک اہم موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو چین کے معاشی ڈھانچے سے جوڑے تاکہ اس سے مستقبل قریب میں بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔