معلوم نہیں زمانے کے اطوار بدل گئے یا ہماری طبیعتوں میں کوئی خلجان پیدا ہوا۔پھر ہم یا تو کسی خوش فہمی کا شکار ہیں یا کسی غلط فہمی کے نرغے میں ہیں۔ پتا نہیں کیا جھاڑو پھری ہے۔درد کے عنوان اور سے اور ہوئے جاتے ہیں۔لوگوں کا رجحان کسی اور طرف ہے۔ان کی خوشیاں اور افراتفری کے پوائنٹ اب کچھ اور ہوگئے ہیں۔پارک ویسے کے ویسے موجود ہیں مگر ان کے اندر باہر گھومنے والے شہری کہیں روپوش ہو گئے ہیں۔ کورونا وائرس کا تو نام بدنام ہے۔ اس وبا سے قبل ازیں بھی سالہا سال سے ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔ عوام الناس کا ٹرینڈ بدل کر کوئی اور شکل اختیار کر گیا ہے۔ پھر غربت نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔معیشت کی بربادی ہے کہ عام لوگ ہمارے پارکو ں کے بجائے کہیں اور جاتے ہیں۔زیادہ تر کا رخ اب تو ہوٹلوں کی طرف ہے۔نیا زمانہ نئے صبح شام ہیں۔ پھر اس موبائل نے بھی تو لنکا ڈھا دی ہے۔وہ تباہی مچا دی ہے۔وہ منادی سنا دی ہے۔ زندگی کی جلتی آگ کو ہوا دی ہے۔ایسا کچھ تو پہلے نہ تھا۔ پارکوں میں رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ کھیلوں کیلئے بھی پارکو ں کارخ کرتے تھے۔ مگر اب تو خود کھیل کھیلنے کے بجائے کرکٹ کا کھیل ٹی وی پر دیکھنے کی مصروفیت ہے۔ ہاکی کا تو نام و نشان نہیں رہا۔ پھر ہاکی پارکوں اور باغوں میں تو عرصہ ئ دراز ہوئی اب کھیلی نہیں جاتی۔ کوئی ان میدانوں میں ہاکی کھیلتا ہوا پائے جائے تو اس کی دماغی صحت پر براہِ راست شک کیا جا سکتا ہے۔وزیر باغ کا تو اب کوئی رخ ہی نہیں کرتا۔ یہ ویرانی کی ایک تصویر ہے۔ بیس سال پہلے تو اس میں کافی رونق تھی۔لوگ یہاں وہاں سے آکر باغ میں جمگھٹے لگاتے تھے۔ مگر اب تو بڑے پارک ہو ں یا باغ ہو ں۔ ان کے میدان نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے جیسے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں۔وزیر باغ میں ہم خود کھیل کر بڑے ہوئے ہیں۔سن اسی کا زمانہ اس کی رونق کا زمانہ تھا۔ مگر بعد میں تو نہ باغ رہا اور نہ باغوں کی رونقیں۔ باغوں کے دروازے بند کر دیئے گئے او ران میں زنجیریں ڈال دی گئی۔ کچھ تو دہشت گردی کے زمانے میں اجڑ گئے اور کچھ لوگوں کی خود کی اپنی دلچسپی نہ رہی۔ بہت سے باغات اور پارک تھے۔ جن کی اب یاد ہی باقی ہے۔اب تو لے دے کے دو ایک پارک ہیں جہاں شہر کے باسیوں کا جانا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ ان کے بچے ضد کرتے ہیں کہ ہمیں جھولے جھولنا ہیں۔ورنہ ان پارکوں میں جھولے اگر نہ ہوں تو وہاں بھی کوئی نہ جائے۔ جو باقی کے پارک ہیں ان کو آباد کرنے کیلئے حکومت کی اچھی خاصی اور ضرورت سے زیادہ دلچسپی چاہئے اور اس کے لئے بہت بڑی سرکاری امداد درکار ہے۔ مگر نہ تو حکومت کے پاس فالتو کاموں کیلئے رقم ہے اور نہ ہی ان کے پاس توجہ ہے کہ وہ سیاست سے ہٹا کر کاموں میں صرف کرے حالانکہ دیکھا جائے تو پارکوں کو آباد کرنا اور وہاں پرسہولیات فراہم کرنا ایک طرح سے محض سبزے اور درختوں میں سرمایہ کاری نہیں بلکہ یہ عوام کی صحت میں سرمایہ کاری ہے کہ جہاں پر پارک آباد ہوتے ہیں وہاں ہسپتال ویران ہوتے ہیں اور جہاں پارکوں پر ویرانی چھا جائے پھر ہسپتالوں پر بوجھ تو بڑھنا ہی ہے۔شاہی باغ کو آباد کرنے کی بہت سی کوشش کی گئی مگر جو ویرانی ہے وہ کہانی ہے اور یہ کہانی ختم ہونے والی نہیں۔شاہی باغ کی آباد کاری کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ نئی سے نئی ترکیب آزمائی گئی۔مگر سب بیکار گیا۔ جی ٹی روڈ قلعہ بالا حصار کے سامنے والا پارک بھی کبھی آباد تھا مگر اب نہیں رہا۔ اب یہاں کھیل تماشے نہیں ہوتے۔یہ سارے پارک جب آباد اور پررونق تھے تب ان کی گہما گہمی اور رنگینی ہم نے خود دیکھ رکھی ہے۔مگر افسوس کہ اب ہماری آنکھیں کچھ اور ہی منظر دیکھ رہی ہیں۔ہم بہت اہتمام کر کے ڈیفنس پارک جاتے۔ شام پڑتے ہی وہاں روشنیاں جگمگا اٹھتی تھیں۔ ان کے اینٹوں کے فرش پر یہاں سے ہم بمعہ فیملی پیدل جارہے ہوتے تھے اور سامنے سے دوسرے شہری گروپ کی شکل آتے ہوئے مل جاتے۔ مگر اب تو سب تڑی بڑی ہو گیا ہے۔ شاید آنے والے زمانوں میں یہ آباد کاری پھر سے دکھائی دے۔ جب عدم تحفظ کا احساس ختم ہو جائے گا۔ لوگ پھر سے پارکوں کا رخ کریں گے۔ پھر یہ کہ اب شہری اپنی لیڈیز کے ساتھ ان پارکوں اور باغوں میں آنے سے ہچکچاتے ہیں۔کیونکہ وہ ماحول جو پہلے ہوتا تھا اب نہیں رہا۔۔اب ان پارکوں میں کھانے پینے کی دکانیں ہیں اور کچھ شہری ٹریک پر جاگنگ کرتے ہوئے اگر مل گئے تو خیرورنہ تو زمین اور سبزہ یونہی پڑا اپنے روٹھے ہوئے سیر بینوں کے انتظار میں اونچا اونچا ہو کر دیکھتا رہ جاتا ہے۔خالد بن ولید پارک بھی کبھی رونقوں کا مرکز تھا۔ رکشے کروا کے فیملی کو بٹھا کر دو تین رکشوں کے قافلے میں ہم وہاں پہنچتے۔ مگر اب یہی دلچسپی اگر ہے تو دوسرے قریب کے شہروں میں جاکر وہاں کے پارکوں میں بیٹھنے میں ہے۔کیونکہ بینکوں سے گاڑیاں اس تیز رفتاری کے ساتھ پہلے نہیں ملتی تھیں جیسے اب مل رہی ہیں۔سو ہمارے بھائی بند اور دوست یار اپنی گاڑی میں بمعہ فیملی بیٹھتے ہیں اور پشاور کو چھوڑ کر اٹک کی جانب جانے والی سڑک پر رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ کوئی نوشہرہ میں کوئی اٹک کے پارکوں میں اٹک جاتا ہے۔