امریکہ تنقید کی زد میں۔۔۔۔

گزشتہ کالم سے پیوستہ موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے ذکر کریں کہ سٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں امریکہ میں آتشیں اسلحہ کی فروخت اور فائرنگ کے واقعات "ریکارڈ ترین حد تک پہنچ گئے اور معاشرتی نظم و نسق پر لوگوں کا اعتماد کم ہو گیا۔ نسلی نا انصافی پراحتجاج اور انتخابی تنازعات  کے تناظر میں 2020 میں امریکیوں نے 23 ملین بندوقیں خریدیں جو 2019 کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ ہیں۔ سال بھر فائرنگ کے واقعات میں 41500 سے زیادہ افراد مارے گئے جو ایک دن میں اوسطا 110 سے زیادہ ہیں اور 592 اجتماعی قتل کے واقعات بھی ہوئے۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر نسلی انصاف کیلئے ہونے والے احتجاج کو امریکہ نے طاقت کے زور پر دبایا اور 10000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بڑی تعداد میں صحافیوں پر بلا وجہ حملہ کیا گیا اورانہیں گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کورونا پھیلنے سے امریکہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بدترین معاشی بدحالی آئی، معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی، معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ بدحال ہوگئے اور امیراورغریب کے مابین فرق بڑھتا گیا۔ ایک فیصد دولت مند امریکی پچاس فیصد امریکیوں کے مقابلے میں سولہ گنا دولت کے مالک ہیں۔ وبا سے  بے روزگاری 21.2 کی تاریخی سطح پر پہنچ گئی۔ لاکھوں افراد صحت انشورنس کی کوریج سے محروم ہوگئے۔ امریکہ میں پچاس ملین افراد یعنی ہر چھ میں سے ایک امریکی اور چار میں سے ایک امریکی بچہ خوراک کی کمی کے خطرہ سے دوچار ہوگئے۔ رپورٹ میں امریکہ کی جانب سے بین القوامی قوانین کی پامالی اور اپنی بین القوامی ذمہ داریوں سے فرار پر بھی کڑی تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جانب سے بین الا قوانین کی پامالی انسانی المیوں پرمنتج ہوتی ہے۔ کورونا وبا شروع ہوا تو عالمی سطح پر امدادی کام کیلئے اقوام متحدہ کو رقم کی ضرورت تھی مگر امریکہ نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دئیے۔ پھر عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود جولائی 2020 میں امریکہ عالمی ادارہ صحت سے نکل گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی پر پیرس معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری سیاسی کوتاہ بینی، غیر سائنسی اور اخلاقی طور پر غیر ذمہ دارانہ تھی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے عملے پر امریکہ میں داخلے پر پابندیاں عائد کرنے اور دوسرے ممالک پر دھونس جمانے سے امریکہ دوسرے ممالک میں ممکنہ جنگی جرائم اور اپنے شہریوں پر پولیس تشدد پر بین الاقوامی تحقیقات سے بچ گیا۔ رہورٹ میں ایران، کیوبا، وینزویلا اور شام سمیت ممالک پر امریکی حکومت کی طرف سے عائد یکطرفہ پابندیوں کے باعث ان ممالک کو کورونا ویکسین اوروبائی امراض کا سامان بروقت حاصل کرنا مشکل بن گیا ہے۔پناہ گزینوں کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ تارکین وطن بچوں کی ایک بڑی تعداد قید میں پھنس گئی اورامریکی حکومت نے وباء کے دوران عدم تحفظ کے خدشات کے باوجود کم سے کم 8800 تارکین وطن بچوں کو اکیلے ملک بدر کردیا تھا۔ ایک سابق امریکی صدر کی جانب سے عراق میں جنگی جرائم کے مرتکب بلیک واٹر ٹھیکیداروں کو معافی دینے سے بین الاقوامی قانون کے تحت امریکی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہوئی اور اس سے مستقبل میں دوسروں کو اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے  کی حوصلہ افزائی ہوگی۔امریکی حکومت انسانی حقوق کے اپنے خوفناک ریکارڈ کو درست کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرتی رہی جس سے اس کے دہرے معیار اورانسانی حقوق پر منافقت سامنے آئی۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ امریکہ اپنے لوگوں کی تکالیف پر ہمدردی کا مظاہرہ کرے گا اور عالمی سطح پر منافقت، دھونس، چھڑی استعمال کرنے کی خواہش اور دوہرے معیار کو ختم کرے گا اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر انسانیت کے بہتر مشترکہ مستقبل کے لئے کام کرے گا۔