آزادی اظہار: مقدسات و اخلاقیات۔۔۔۔

یورپی یونین میں شامل ممالک کی پارلیمینٹ نے پاکستان پر شدت پسند اور انتہا پسند جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے 6 کے مقابلے 681 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی مذمت اور یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو دی گئی خصوصی تجارتی حیثیت (جی ایس پی پلس) پر نظرثانی کی جائے۔ مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر اقلیتوں‘ حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں‘ مذہبی رواداری اور برداشت کیلئے کام کرنے والی تنظیموں اور صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کرے۔ اِس قرارداد کی منظوری کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو یورپی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان ایک متحرک سول سوسائٹی‘ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد عدلیہ کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت ہے جبکہ یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان سمیت وسیع تر مسلم دنیا میں توہین مذہب کے قوانین اور اس سے وابستہ مذہبی حساسیت کے تناظر میں کی گئی گفتگو عدم برداشت کی عکاسی کرتی ہے۔ تعجب خیز ہے کہ یورپی پارلیمینٹ کے اراکین نے جو الزامات پاکستان پر عائد کئے ہیں وہ خود اِن ممالک پر صادق آتے ہیں جہاں آزادیئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری معمول بن چکا ہے۔ کیا مسلمان انسان نہیں اُور مسلمان ممالک کے رہنے والوں کے حقوق نہیں؟اسلام سلامتی‘ امن‘ رواداری‘ تحمل‘ برداشت اور عدم تشدد کا مذہب ہے۔ اسلام میں جبر نہیں۔ جمہوریہ اسلامیہ پاکستان میں کوئی بھی قانون اسلامی تعلیمات کی نفی میں نہیں بن سکتا۔ دین حنیف میں اقلیتوں کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے اور ان کے یکساں حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ پاکستان کے قیام میں اقلیتوں کا کردار مسلمہ ہے۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر اجلاس میں الفریڈ‘ آر اے گومز اور ایس ایس البرٹ بھی شامل تھے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر مسیحی دیوان بہادر ایس پی نے اپنا اضافی ووٹ کاسٹ کرکے قیام پاکستان کے حوالے سے قرارداد کی منظوری کو ممکن بنایا تھا۔ استحکام پاکستان میں اقلیتوں کا کردار مثالی رہا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا ہر دور میں احساس اور ادراک کیا گیا۔ پاکستان کے بعد پہلے وزیر قانون جو گندر ناتھ منڈل ہندو تھے‘ وکٹر ٹرنر کو فنانس کا قلم دان سونپا گیا‘ ان کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔ پاکستان میں کبھی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی حکومتی پالیسی نہیں رہی۔ روزمرہ زندگی میں بلاتخصیص تشدد کے واقعات ہوئے جن پر قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جاتی ہے۔ اگر کہیں ایسے واقعات میں اکثریتی اور اقلیتی افراد کے مابین ہوں تو ان کو ایسے لوگوں کی طرف سے زیادہ اچھالا جاتا ہے جو پاکستان کی دنیا کے سامنے بری تصویر رکھنے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔ انصاف کے معاملے میں اقلیتوں کے ساتھ قطعی طور پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک معاملہ ’ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ اور ’ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ سے متعلق عقائد کا ہے تو اِس معاملے میں دنیا کے ہر مسلمان کی طرح پاکستانیوں کے جذبات بھی نہایت ہی حساس ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر رشتے اور چیز سے بڑھ کر محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس کی تاکید قرآن و حدیث میں کی گئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ِاقدس میں کوئی گستاخی کرے‘ وہ اہل اسلام کیلئے کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت  قابل قبول و برداشت نہیں ہے۔ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر توہین کرنے والوں کیلئے سزائے موت مقرر ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو‘ خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ آئین کی شق ’295 سی‘ کے تحت مسلمانوں کے خلاف بھی مقدمات بنتے ہیں۔ یورپی یونین کی قرارداد پاکستان کے مخالفین کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد غیرحقیقی واقعات کی بنیاد پر ہے۔ اِس سلسلے میں یورپی یونین میں تعینات سفارتی عملے کو چاہئے کہ وہ یورپی یونین پارلیمنٹ کی غلط فہمی حقائق پیش کرتے ہوئے دور کرے۔ مسلمان جس ناموس انبیاء علیہم السلام کے تحفظ کی بات کرتے ہیں وہ اِس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان عالمی قانون سازی پر زور دیتے رہے ہیں۔ ناموس انبیاء کے تحفظ کے قانون سے کسی بھی شخص کو خطرہ نہیں ہو سکتا۔ آزادی اظہار اپنی جگہ مگر کسی کی دل آزاری کیلئے گستاخانہ کلمات زبان پر لانے کو ”آزادی“ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اِس کی اجازت اخلاقیات بھی نہیں دیتا۔ یورپی یونین ممالک کی سوچ واضح ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان پر اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں اسلام کے بنیادی اصولوں کا علم اور اسلامی مقدسات کی حرمت کا احساس نہیں اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں اگر یورپی یونین کے فیصلہ ساز اگر اسلام کو سمجھ لیں اور اُن کے سامنے اسلام کے عقائد کو رکھا جائے تو اِنہیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مؤقف کو سمجھنا ممکن و آسان ہو جائے گا۔