دلوں کی ویرانیاں کیا کم تھیں۔مسافروں کو اب خلاؤ ں میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔اب تو سرِ زمین بھی گلی کوچے ویران ہونے جا رہے ہیں۔ شہر ویران اور گلیاں ویران ہیں۔شیشہ و جام بجھ گئے ہیں۔وہ شوخیاں اوردلوں کی نگاہوں کی رونقیں کچھ تو کم تھیں اور کچھ کو مزید کم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔کیونکہ سنا ہے بقا شہرکی اسی میں ہے کہ یہ شہر اجڑ جائے۔ بندہ بندے سے دور ہو تو جاکر کہیں بیماری دل کا علاج ہو۔پہلے تو بندے سے بندہ ملتا تھا تو علاج و معالجے کی بات ہوتی۔ وہ کیا شعر ہے کہ ”ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق۔ و ہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے“۔اب تو بیمار کا حال تب اچھا ہوگاکہ اسے بالکل بھی دیکھا نہ جائے۔اس سے ملا نہ جائے اور وہ بھی کسی سے نہ ملے۔ تب کہیں قرنطین کی تنہائی میں اس کیلئے اور دوسروں کیلئے شفایابی ہے وگرنہ نہیں ہے۔اب ناسا کے خلانورد اگر خلاکا سفر بھی اختیار نہ کریں۔پھر وہ اگر پوری دنیا کے شہروں کے چکر لگا لیں تو انھیں حال معلوم ہو جائے گا کہ دنیا تو ویرانہ بن گئی ہے۔اب جو کچھ انھیں اوپرکہیں جا کر ڈھونڈنا تھا ان کو نیچے زمین پر مل جائے گا۔مریخ پر ہیلی کاپٹر اتارا گیا۔ مگر کون ساکمال ہوگیا۔ ذرا پاکستان کی فضاؤں سے ہوتا ہوابوئنگ جہاز کسی ایئر پورٹ پراتار کر دکھائیں۔ کیونکہ اسی فیصد جہازوں کا ٹریفک بند کردیا گیا ہے۔نہ کوئی آئے نہ کوئی جائے۔۔وہ کون سا کوچہ ہے جہاں حال مندہ نہیں۔ اگر زیادہ ویرانی چاہئے اور حیرانی پھر پریشانی تو ساتھ والے ملکوں کے گلی کوچوں کی ہوا کھا کر آ جائیں۔ وہاں سڑکیں ویران ہیں کوئی ایک پولیس والا اگر گھومتا چکر لگاتا دکھائی دے جائے۔ جیسے کوئی شہابِ ثاقب رات کو نظر آئے اور غائب ہو جائے اسی طرح کا ماحول ہمارے جغرافیے میں واقع حددواربعہ میں موجود ہے۔جہاں شہر خالی کوچہ خالی سب کچھ خالی اور خال مخال ہے۔پھر ان میں چکر لگاتے انسان بھی خال خال ہیں۔اگر کسی دوسرے دیس جانا ٹھہرا ہے تو وہاں قرنطینہ کی تنہائی میں ایئر پورٹ ہی پر ٹھہرناہوگا۔اس کے بعد شہر میں داخلہ ملے گا۔وگرنہ ایسا خیال ہے تو محال ہے کہ دوسرے دیسوں کے چکر لگائے جائیں۔پھروہاں کی شہریت والوں کو بھی اس طرح کی بے جرم کی سزا برداشت کرنا ہے۔سو ثابت ہوا کہ قرنطینہ کے اکیلے پن میں شفا ہے۔پھر آدمی اپنے کو اکیلا نہ سمجھے۔شہر کو ویران ہوتے ہوئے دیکھنا بہت دل گردے کا کام ہے۔پھر اوپر سے ستم یہ کہ جنازوں میں شرکت بھی دشوار ہوئی جاتی ہے۔ کئی اپنے پیارے جہان چھوڑ گئے۔ وجہ کچھ اور بھی تھی مگر جنازوں کے رش سے بچنے کو یاروں نے کمر باندھی کہ ساتھ کوروناکے جراثیم بقچے میں باندھ کر لے نہ آئیں۔کل ہمارے پیارے شاعر افتخار تشنہ کی انگریزی لیکچرار صاحبزادی دماغ میں پھوڑے کے باعث دنیا سے منہ موڑ گئی۔پھر اسی دن ہمارے قلم قبیلے کی ایک اور رائٹر کالم کار زبیدہ فردوس زوبی بھی کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد دل کے مرض کے کارن اپنے بھائی بندوں کو اداس کر گئیں۔ کچھ عرصہ پہلے مرحومہ کے دو صاحبزادے چارسدہ روڈ لنڈی سڑک سٹاپ پر کار ایکسیڈنٹ میں جان سے گئے۔ شاید یہ وجہ ہو کہ اس کے بعد جو ں وہ بیماری کے بستر سے لگیں تو پھر سلامت اٹھنا ان کے نصیب میں نہ تھا۔ایک ماں اس صدمے کو کس طرح سہے۔مر بھی نہ سکے اور جان سے بھی نہ جائے تو پھر کیا کرے۔کورونا کے وار تو الگ سے جاری ہیں مگر عزیزوں کی میتیں دوسرے انداز میں بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ ”ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا“۔غالب نے اگر اپنے گھر کے بارے میں کہا کہ یہ ویرانے سے زیادہ بے آباد ہو چکا ہے تو غلط نہیں کہا۔آج تواس عالمی وائرس کے ہاتھوں سڑکوں اور گلیوں کی خاموشی میں وہ ڈر بول رہاہے کہ آدمی آدمی سے ڈرنے لگا ہے۔جب باہر کا یہ حال ہو تو اندر حال کیا ہوگا اور اندر کا عالم یہ ہو تو باہر کی فضا کتنی دلدوز اور ڈراؤنی ہوگی۔دکانیں بند ہیں اور شٹر ڈاؤن ہیں۔ہفتہ اتوار ویسے ہی اور عام دنوں میں چھ بجے شام کے بعد خاص طور پر۔پھر اگر بازارو ں میں کچھ وقت کو دکانیں کھلتی بھی ہیں تو گھروں میں دبکے ہوئے ڈرے سہمے گاہک بازارکو کیسے آئیں گے۔ دکاندار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔شاید کوئی آئے۔ مگر صدا آتی ہے کہ ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“۔فراز کاشعر یاد نہ آئے ایسا تو امکان میں نہیں ”نامرادی کا یہ عالم بھی تو اے دل نہ رہے۔اب تو ہم ترک تعلق کے بھی قابل نہ رہے“۔کیونکہ ترک تعلق کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے بس ترک ہوچکااور سب کچھ ترک ہو چکاہے شہر کی ویرانی کو دیکھ کرسب یاد آجاتا ہے کہ کوئی چیز کیسے ترک ہو سکتی ہے یا ترک کی جاسکتی ہے۔