زمبابوے کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں ’ٹیم گرین‘ کی ایک اننگ اور ایک سو سولہ رنز سے غیرمعمولی کامیابی نے جہاں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کو برتری دلائی ہے وہیں سوشل میڈیا پر ملکی اور غیرملکی کرکٹ شائقین نے حسن علی کی بہترین باؤلنگ کو سراہا ہے جنہوں نے دوسری اننگز میں پانچ اور مجموعی طور پر میچ میں 9 وکٹیں حاصل کیں جس کے ذریعے حسن علی کی ٹیسٹ میچوں میں وکٹوں کی نصف سنچری بھی مکمل ہو گئی ہے لیکن حسن علی کی کارکردگی کا تسلسل نہیں اور ماضی میں اُنہوں نے کامیابی کیلئے کئی متنازعہ حربے (شارٹ کٹس) استعمال کئے جو شائقین کے حافظوں سے ابھی محو نہیں ہوئے۔ ایک وقت وہ تھا جب حسن علی اپنے ہی بقول حادثے (انجری) کا شکار ہوئے اور پھر کھیل میں واپس آنے کیلئے مکمل بحالی سے گزرنے اور فرسٹ کلاس سیزن میں کارکردگی دکھانے کی بجائے انہوں نے پاکستان سپر لیگ کا انتظار کیا۔ اِس خوشی کے موقع کے موقع پر حسن علی کو اُن کا ماضی یاد نہیں دلانا چاہئے لیکن دیگر کھلاڑیوں کیلئے مثال بننے سے روکنے کیلئے اِس قسم کے شارٹ کٹ کا ذکر ضروری ہے کیونکہ لازم نہیں کہ ہر مرتبہ شارٹ کٹ منزل تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بنے بلکہ ممکن ہے اور اکثر شارٹ کٹس مزید تباہی کی جانب لے جاتے ہیں! زمبابوے میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ میچ کئی لحاظ سے یادگار ہے۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے فواد عالم کی سنچری کی مدد سے چارسو چھبیس رنز بنائے۔ زمبابوے نے جب دوسری اننگز شروع کی تو اسے ڈھائی سو رنز کے خسارے کا سامنا تھا۔ دوسری اننگز کے آغاز میں زمبابوے نے قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اور اوپنرز نے اڑتالیس رنز کی پارٹنرشپ قائم کی لیکن پھر زمبابوے کی وقفے وقفے سے وکٹیں گرتی رہیں اور پوری ٹیم 9 وکٹوں کے نقصان پر ایک سو چونتیس رنز بنا سکی جبکہ ایک کھلاڑی زخمی ہونے کی وجہ بیٹنگ بھی نہیں کر سکا۔ زمبابوے کی طرف سے سب سے زیادہ سکور موساکاندا کا تھا جنھوں نے اڑتالیس رنز کی اننگز کھیلی۔ کپتان برینڈن ٹیلر اٹھائیس رنز بنا کر نعمان علی کی گیند پر حسن علی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ تیسرے روز جب پاکستان نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ فواد عالم اور حسن علی بیٹنگ کر رہے تھے۔ حسن علی آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی تھے۔ انھوں نے جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے تیس رنز بنائے جو اپنی جگہ اہم تھے کیونکہ پاکستان کو تیز رنز کی ضرورت تھی جس سے زمبابوے کی فیلڈ اور باؤلرز دباؤ میں آ گئے۔ حسن علی کے آؤٹ ہونے کے بعد نعمان علی بیٹنگ کرنے آئے لیکن وہ کوئی رنز بنائے بغیر پویلین لوٹ گئے۔ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ساجد علی نے سات رنز بنائے۔ ساجد خان کو میچ میں باؤلنگ کا موقع ملا اور انہوں نے دونوں اننگز میں مجموعی طور پر پندرہ اوور کرائے لیکن کوئی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ جب فواد عالم ایک سو چالیس رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو پاکستان کا سکور چارسو چھبیس رنز تک پہنچ چکا تھا اور اسے زمبابوے پر ڈھائی سو رنز کی برتری حاصل ہو چکی تھی جسے حسب توقع زمبابوے کی ٹیم عبور نہ کر سکی اور اس طرح پاکستان نے دو میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔سپورٹس کے اعداد و شمار دلچسپ و عجیب ہوتے ہیں کہ اِن کے ذریعے کسی ٹیم کی کارکردگی کا دفاع بھی کیا جا سکتا ہے اور شکست کھانے والی ٹیم کے حق میں تبصرے بھی ممکن ہوتے ہیں۔ بہرحال اعدادوشمار اور ماضی و حال کا حصہ یہ بات اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ 9 سال میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان نے تین دن کے اندر اندر ٹیسٹ میچ جیتا ہو‘ آخری مرتبہ اِس قسم کی جارحانہ کارکردگی کا مظاہرہ سال دوہزاربارہ کے دوران اُس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب ٹیم گرین متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں برطانیہ کے خلاف کھیلی تھی۔ جنوبی افریقہ کے بعد زمبابوے کا دورہ کامیابی سے مکمل ہونے کے قریب ہے‘ جس کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیسٹ کرکٹ رینکنگ بھی بہتر ہو گی اور یوں اگرچہ کرکٹ سٹیڈیم کورونا وبا کے سبب تماشائیوں سے خالی ہیں لیکن کھلاڑیوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اُن کی کارکردگی پر کرکٹ شائقین کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور ہر ایک بال کے ساتھ بننے والی تاریخ بھی مؤرخ لکھ رہے ہیں۔