عام سی سڑک ہے یا مین روڈ ہے۔ قومی شاہراہ یا موٹر وے ہائی وے ہے۔ یہ سب کچھ ہوگا۔مگر مسئلہ تو کچھ اور ہے۔جو قابلِ غور نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس پر توجہ بھی کر لیں تو کیا کر لیں گے۔ کیونکہ ہمارے شہری تو اس پر توجہ نہیں دیتے۔ چو رستہ ہو یا عام سی گلی۔ ان اونچی نیچی راہوں پر یا ہموار او رریشم جیسی شاہراہوں پر جن پر سے ہمارا گزر ہوتا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سڑک ہمارے نا م انتقال ہو چکی ہے۔ہمارے علاوہ جو بھی اس پر جا رہاہے وہ غلط ہے۔ اس لئے ہم اسے اول تو راستہ نہیں دیتے۔ اگر تھوڑا دل نرم ہو تو دے بھی دیں گے۔مگر عام طور سے ہم لوگ سڑک پر گاڑیوں میں سوار ہو کر دوسری گاڑیوں والو ں کے ساتھ ضد پر اُتر آتے ہیں۔ پھر یہ ضد بازی عام سی بات ہے۔موٹر سائیکل والا ہے اگر گاڑیوں کے بیچوں بیچ اپنی فنکاری اور مہارت اور چانس کے ذریعے راہ نکال لیتا ہے تو بڑی گاڑی والے اس کے ساتھ ضد پر اتر آتے ہیں۔ ایک حسد سی برپا ہو جاتی ہے کہ یہ ہم سے پیچھے آنے والا ہم سے آگے کیوں نکل گیا۔ پھر موٹر سائیکل والے کو بھی اگر راستہ نہ ملے تو وہ بھی ضد کرتے پایا گیا ہے۔وہ ہر طرح سے جان پر کھیل کر اوپر نیچے ہوتے ہوئے گاڑیوں سے وہ آگے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے۔پھر اکثر کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔کیونکہ اس کے پاس سواری کا اور گاڑی کااتنا بوجھ نہیں ہوتا۔ ہاں کبھی اس کے ساتھ بچے ہوں پیچھے زوجہ بیٹھی ہو تو وہ اس بات سے بھی لا ج محسوس نہیں کرتا۔ وہ اس کے باوجود اپنے آپ کو بائیک کی ریس میں محسوس کرتا ہے۔مگر ان تمام لوگوں میں اچھے لوگ بھی تو ہیں۔ جو دھیرے گاڑی چلاتے ہیں۔ خود ہمیں لے لیں۔ہم میں سو خرابیاں ہوں گی۔ مگر مجال ہے اور کمال ہے کہ ہمیں خود نظر آتی ہوں۔ ہم تو تیس کی سپیڈ سے جاتے ہیں اور سڑک کے بائیں کنارے پر چلتے ہیں۔ مگر جو برق رفتاری کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں۔اس پر توبہ توبہ کرنے کو تو جی چاہتا ہے۔مگر یہ توبہ دل ہی دل میں کرتے ہیں۔ کیونکہ خو موٹر بائیک کا ہینڈ ل چھوڑ کر اگر توبہ کریں تو ساتھ گذرنے والی گاڑیوں کے چلانے والے اس موقع پر ہمارے انجام سے عبرت حاصل کر کے گاڑی روک کر توبہ کریں گے۔ خود ہم سی ڈی سیون ٹی پر سوار ہو کر محسوس کرتے ہیں کہ کسی بکری پر سوار بھاری تن بدن کے ساتھ گھبراہٹ میں اس کے کان پکڑ رکھے ہیں۔اس ضد بازی سے بے صبری جنم لیتی ہے اور صبری سے دوبارہ ضد بازی کاظہور ہوتاہے۔سڑک پر اس قسم کے تماشے بلکہ کھیل جان لیوا ہوتے ہیں۔ دو بھاری ٹرک ہیں۔ مگر اچانک ان میں ٹھن جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے سے آگے جانے کی ضد میں گاڑی کو تیز کرنے کی کوشش میں سامنے سے آنے والی گاڑی کو ٹکر مار دیتے ہیں۔ پھر ان جمبو جیٹ جہازوں کے آگے جو رن وے پر اڑان بھرنے کو دوڑ رہے ہوں موٹر سائیکل کی کیا حیثیت۔ انسان میں بنیادی طورپر بے صبری کا عنصر بھی موجود ہے۔یہ بے صبری صرف سڑک پر تو نہیں زندگی کے ہر میدان میں یہی بے صبری انسان کی عز ت تک کو تاراج کر دیتی ہے۔پھر ہمارے ہاں جو ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔جن کا تعلق شہرکے اندر کے ماحول سے ہے ان میں زیادہ تر لوگ بائیک پر سوار ہوتے ہیں۔ان کی گاڑی کو کوئی ٹھوک دیتاہے یا خود یہ بے صبری کے کارن کسی اور کی گاڑی کو ٹھوکر لگا دیتے ہیں۔ پھرکمال بات یہ ہے کہ یہ خود کسی کوماریں یا ان کو کوئی ٹکر لگا دے دونوں صورتوں میں نقصان موٹر سائیکل سوا ر کا ہوتا ہے۔مگر یہ لوگ ایک دوسرے کے انجام سے بھی عبرت کاسامان حاصل نہیں کرتے۔ دوسرے کو بھلا چنگا دیکھ داکھ کر کہ اس نے جلدی میں خود کو بہت زخمی کردیا سبق نہیں سیکھتے۔ مگر چار پہیوں کی گاڑی والے بعض بہت سمجھ دار ہوتے ہیں۔ وہ موٹر بائیک کو دیکھ کر خود ہی احتیاط کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان کو موٹر سائیکل سوار کا موڈ اور انداز دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کہیں ہماری گاڑی کو ٹھوکر لگانہ دے۔ اس لئے وہ موٹر بائیک والے کو ہر طرح سے راستہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا خیال ہوتاہے کہ اگر ہم نے عین سڑک کے بیچ اس کو سہولت نہ دی تو ہماری گاڑی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ نئی نویلی گاڑی پر کھینچی ہوئی ایک کھردی اور ناہموار لکیر اس چمچماتی ہوئی گاڑی کی قیمت نیچے کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔جب اس خطرے کو محسوس کرلیا جائے تو گاڑیوں والے حد سے زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں۔ مگر گاڑی چلانے والا باعمر ہو۔ اگر وہ ینگ ہوتو موٹر سائیکل اور رکشہ اور چنگ والوں کے ساتھ ضد پر اترآتا ہے۔جس کے نتیجے کے طور پر جب خود اپنی گاڑی کا نقصان ہوجاتاہے تو سوائے ندامت کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔سو اس میں دوسری رائے نہیں کہ احتیاط ہر طرح سے اچھی چیز ہے۔