امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے افغانستان سے اپنی افواج اور ساز و سامان کا انخلاء شروع کردیا ہے اور اگر کسی وجہ سے اس میں تعطل نہ آیا تو یہ سلسلہ اس سال گیارہ ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ لیکن دنیا بھر کے ممالک کسی بین الافغان معاہدے اور عالمی امن فوج کے بغیر انخلاء کے بعد کے افغانستان میں متوقع خانہ جنگی اور خطے اور اس سے باہر ممالک پر اس کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے پریشان ہیں اور سب اس حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دوڑ دھوپ کررہے ہیں۔بھارت یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان پر طالبان قبضہ کرلیں گے جن کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے اور روس اور چین، جن کیساتھ بھارتی تعلقات میں مسائل پیدا ہوچکے، بھی طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ امریکہ بھی ان کو ناراض کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ چنانچہ بھارت بھی کوشش کررہا ہے کہ انخلاء کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان حکومت سے اس کے دوستانہ تعلقات یا کم ازکم تعلقات کار قائم رہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لا رہا ہے۔ وہ امریکہ اور قطر کے ذریعے افغان مذاکرات میں شریک رہنے کیلئے کوشاں ہے اور خود بھی طالبان سے رابطے استوار کرنے حتی کہ پاکستان سے بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت جو اب تک طالبان سے بات چیت اور تعلقات کا شدید مخالف رہا ہے اور طالبان سے پاکستان کے تعلقات کی بنیاد پر وہ پاکستان پر شدید تنقید کرتا رہا ہے اب وہ طالبان سے رابطے استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا حامی ہے اور افغانیوں کے سرکردگی، ملکیت اور نگرانی میں اقوام متحدہ کے تحت مذاکرات کی وکالت کررہا ہے بھارت کے پالیسی ساز حلقوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے اور ماہرین اس پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اس لیے ان سے سفارتی سطح پر رابطے بحال کرنا ضروری ہیں۔ ان کا خیال ہے ایسا کرکے وہ انہیں پاکستان سے دور نہ بھی کر سکیں تو اپنا دشمن بننے سے تو روک پائیں گے۔بھارت نے افغان کی تعمیر نو میں تقریباً تین بلین ڈالر خرچ کئے ہیں اور وہ انہیں ضائع جانے نہیں دے گا۔ اس لیے وہ افغان مذاکرات میں حصہ لینا چاہتا ہے اگرچہ افغان اور امریکی حکومتیں افغانستان میں بھارت کا رول بڑھانا چاہتی ہیں مگر اٹھارہ مارچ کو ماسکو کانفرنس میں بھارت کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی‘ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف کا اس وقت کہنا تھا کہ خطے کے تمام اہم ملکوں کو دعوت دی گئی ہے اور افغانستان کے حوالے بھارت خطے کا اہم ملک نہیں ہے اسلئے اس کو دعوت نہیں دی گئی۔ تاہم بھارت، امریکہ اور افغان حکومت کی کوشش ہے کہ افغانستان پر مستقبل میں کسی بھی غور و خوض سے بھارت باہر نہ رہے‘ مستقبل کے افغانستان میں بھارت کو کردار دینے کیلئے چند عرب ممالک بھی اسکی مدد کررہے ہیں۔ قطر کے ساتھ اسکے اچھے مراسم ہیں جو وہاں مذاکرات کیلئے مقیم طالبان رہنماؤں کے ساتھ اس کے رابطے قائم کرنیکی کوشش کررہا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ بھارت نے حالیہ دنوں میں افغان طالبان سے بات چیت کی کوشش کی ہے لیکن طالبان رہنماؤں نے براہِ راست اْن سے ملاقات سے گریز کیا ہے بھارت کو طالبان اور اس کے زیر تسلط افغانستان بارے تشویش ہے مگر ایک تو طالبان سے بھارت کا خوف بے بنیاد ہے کیوں کہ طالبان کے کوئی بین الاقوامی عزائم نہیں ہیں اور وہ اگر پاکستان کی عزت کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بھارت کو دشمن سمجھتے ہیں۔ پھر بھارت افغانستان کا پڑوسی بھی نہیں ہے۔ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرتا رہا ہے مگر افسوس کہ امریکہ نے بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ بھارت کو خدشہ ہے مستقبل میں چین کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں پاکستان اس کا ساتھ دے گا اور کشمیر میں بھی حالات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اس لیے اس کی کوشش ہے کہ ایک تو وہ پاکستان کو اپنی سرحد پر مصروف رکھے اور افغانستان میں اپنے زیادہ کردار کے ذریعے اسے مغربی سرحد پر بھی آرام نہ کرنے دے۔ بھارت نے چالاکی دکھاتے ہوئے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ذریعے پاکستان کو دسمبر 2020 میں مذاکرات کی پیشکش کی۔ مقصد اس کا یہی ہے کہ افغانستان میں اپنے ممکنہ کردار کیلئے پاکستان کا رویہ نرم کر سکے اور پاکستان افغانستان میں اْس کے نئے کردار پر کوئی اعتراض نہ کرے پاکستان کو بھارت کی چال سمجھنی چاہئے۔ افسوس کہ بھارت نے کبھی بھی مذاکرات سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ نہیں کئے اسلئے ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔