کورونا وبا کی نئی اقسام ملک میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے ایران اور افغانستان کے ساتھ آمدورفت معطل کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے جو بیس مئی تک لاگو رہے گا۔ اس پالیسی کا اطلاق زمینی راستے سے آنے والوں پر ہوگا جبکہ اجناس اور سازوسامان و باہمی تجارت کے تحت ہونے والی آمدورفت جاری رہے گی۔ نئی حکمت عملی کی روشنی میں بارڈر ٹرمینل ہفتہ میں سات روز کھلے رہیں گے۔ افغانستان میں موجود پاکستانیوں کو ملک واپسی کی اجازت ہو گی اور کورونا پازیٹو آنے والے افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا جبکہ پاکستانی شہریوں کو قریبی قرنطینہ مرکز منتقل کیا جائے گا۔ ایران اور افغانستان میں طبی بنیادوں پر آنے والوں کو بھی پاکستان آنے کی اجازت ہوگی۔ متذکرہ پالیسی کے تحت ڈرائیورز اور ہیلپرز کیلئے بارڈر ٹرمینل پر تھرمل سکیننگ لازمی قرار دی گئی ہے۔ کورونا وبا کی پہلی‘ دوسری اور اب تیسری لہر نے پوری دنیا کو نڈھال اور بدحال کردیا ہے۔ عالمی منڈیاں اور معیشتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں اور انسانی زندگیاں درختوں سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح بکھر رہی ہیں۔ زندگی کی بے ثباتی کے مظاہر عملاً کورونا وائرس نے ہی دکھائے ہیں۔ اگرچہ اس قدرتی آفت کا پھیلاؤ روکنے کے لئے چین اور روس کی تیار کردہ ویکسین سے تمام متاثرہ ممالک استفادہ کر رہے ہیں‘ اس کے باوجود کورونا کا پھیلاؤ رکنے میں نہیں آرہا اور تیسری لہر نے تو بالخصوص پڑوسی بھارت میں اودھم مچا رکھا ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں اور کورونا سے متاثرہ کیسز بھی روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں میں چلے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں انسانی بے بسی اور بے حسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد بتیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور امریکہ پانچ لاکھ نوے ہزار ہلاکتوں کے ساتھ کورونا سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ بھارت متاثرین ممالک میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔ جہاں اب تک دو لاکھ آٹھ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت ترکی‘ جرمنی‘ بیلجیئم‘ اٹلی‘ سپین میں لاک ڈاؤن کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں اور یوں دنیا وبا اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس صورتحال میں انسانی حیات کا کیا مستقبل ہوگا‘ اس کا دارومدار کورونا کے پھیلاؤ اور اِس کی روک تھام کے اقدامات و تدابیر پر منحصر دکھائی دے رہا ہے۔ کورونا خطرہ ہے اور اِس سے بہرصورت بچنے کے جو بھی ممکنہ اقدامات ہو سکتے ہیں‘ وہ بروئے کار لانا ہوں گے۔ قوم کے ہر فرد کو احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر عملدرآمد کا خود کو پابند کرنا ہوگا بصورت دیگر کورونا کے پیدا کردہ بھارت کے حالات ہمارے گھروں پر بھی دستک دے رہے ہیں۔ بے شک قدرت نے پاکستان کو بھارت جیسی کورونا وبا کی سنگینی سے بچایا ہوا ہے اور پاکستان کا شمار نسبتاً کم متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے تاہم کورونا کی تیسری لہر نے پنجاب اور سندھ کو زیادہ لپیٹ میں لیا ہے اور اس دوران ایک دن میں ریکارڈ دو سو سے بھی زائد ہلاکتیں لمحہ فکریہ ہیں۔ یہ سنگین صورتحال لاک ڈاؤن سمیت تمام احتیاطی اقدامات بروئے کار لانے کی متقاضی ہے۔ اس تناظر میں این سی او سی نے بیس مئی تک افغانستان اور ایران کی سرحد بند کرنے کا درست فیصلہ کیا ہے تاہم پڑوسی ملک بھارت سے ملحقہ سرحدیں بند کرنا بھی اشد ضروری ہے کیونکہ اس وقت بھارت ہی کورونا پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے جہاں انسانی بے چارگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اس لئے قوی امکان ہے کہ پاکستان بھارت سرحدوں پر آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی باشندوں کو کرتارپور راہداری استعمال کرکے دربار بابا گورونانک جانے کی اجازت ملتی رہی ہے تو ہمارے ملک میں بھی کورونا کی تباہ کاریوں کے معاملہ میں بھارت جیسے حالات پیدا ہونا بعیدازقیاس نہیں۔ فیصلہ سازوں کو بہرصورت اپنے شہریوں اور قومی معیشت کو کورونا کے مضر اثرات سے بچانا ہے جس کیلئے کورونا پھیلاؤ روکنے کے انتہائی اقدامات اٹھانا ہوں گے اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پاکستان اس معاملہ میں کسی بھی نرمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کی جانب سے پنجاب کے ہفتہ اور اتوار کو دو روز کے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر عملاً اس فیصلے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کیونکہ ان دو دنوں میں بھی ٹریفک بدستور چلتی رہتی ہے اور مارکیٹوں کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کے مراکز بھی کھلے رہتے ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق بھارت سے ملحقہ سرحد بند کرنے سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔ ایسی گومگو والی پالیسیوں سے کورونا کی روک تھام میں تو شاید ہی کوئی مدد مل پائے البتہ کورونا کا پھیلاؤ مزید جان لیوا ہو سکتا ہے اس لئے مخصوص مدت تک سخت گیر لاک ڈاؤن کی جانب بھی جانا پڑے تو دنیا کے حالات کے تناظر میں ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ بحیثیت قوم آزمائش کے اِس مرحلہ میں رجوع الی اللہ کرتے ہوئے خدا کے حضور گڑگڑا کر معافی بھی مانگنی چاہئے۔