کسی مرض کی تشخیص سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے اور پاکستان کے اقتصادی مسائل اور مہنگائی جیسے امراض کی بنیادی وجہ معلوم ہونا بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اب اِس کے بعد علاج کے مراحل میں (اُمید ہے کہ) افاقہ ہوتا چلا جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو حکومت کی جانب سے اِس اہم پیشرفت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام پر عملدرآمد کو ”مشکل“ قرار دیتے ہوئے نظرثانی کیلئے بات چیت جاری ہے۔‘ جن مالیاتی غلطیوں کو تسلیم کیا گیا ہے اُن میں شرح سود کو تیرہ‘اعشاریہ پچیس فیصد پر رکھنا بھی شامل ہے‘ جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ حکومت یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے سے بدعنوانی (بجلی چوری) بدعنوانی بڑھے گی جبکہ اگر خام قومی پیداوار میں (اقتصادی شرح نمو) میں ’پانچ فیصد‘ تک اضافہ نہ کیا گیا تو مہنگائی بڑھنے کے جاری عمل کو روکا نہیں جا سکے گا چنانچہ تحریک انصاف کے پہلے وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر کی سرکردگی میں آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہوا تو بیل آؤٹ پیکیج لینے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کے تحت حکومت کو دو ضمنی میزانیے لا کر ان کے تحت مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانا اور بعض نئے ٹیکس لگانا پڑے جبکہ سابقہ حکومتوں کی طرح بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کرنا بھی کیا گیا۔ اسی طرح پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بے قابو ہونے سے بھی ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا۔ اس وقت آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والے وزیر خزانہ اسد عمر کو احساس ہوا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل کرنے سے مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی اقتصادی حالت انتہائی دگرگوں ہو جائے گی تو انہوں نے آئی ایم ایف سے شرائط نرم کرانے کی کوشش کی تاہم اس عالمی مالیاتی ادارے کے ایجنڈے کی بنیاد پر انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ جس کے بعد آئی عبدالحفیظ شیخ نے بطور مشیر خزانہ منصب پر فائز ہوتے ہی آئی ایم ایف کی تمام شرائط سرتسلیم خم کرتے ہوئے من و عن قبول کرلیں جس کے بدلے پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے قرض کے قسط وار حصول کا معاہدہ طے پاگیا چنانچہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے دوران اب تک آنے والے دو قومی میزانیوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہی عوام پر مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کا ناروا بوجھ پڑا ہے جس سے اٹھتے ہوئے مہنگائی کے سونامیوں نے عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا ہے۔ مہنگائی کے لئے صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا بھی اچھا خاصا عمل دخل ہے جسے کنٹرول کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے تاہم مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ ہے جسے جواز بنا کر تاجر طبقات اور ٹرانسپورٹر حضرات اپنی مصنوعات کے نرخ اور ٹرانسپورٹ کے من مانے کرائے بڑھاتے رہے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ حفیظ شیخ نے تو اپنے دور میں سٹیٹ بنک کو خودمختاری دلوا کر اسے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد میں آسانی فراہم کی۔ ملک کی اس گھمبیر اقتصادی صورتحال میں شوکت ترین نے جو ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو سدھارنے اور مربوط بنانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ماضی میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے معاملات میں ان کا عمل دخل بھی رہا ہے‘ اقتصادی اور مالی اصلاحات کے عزم کے ساتھ وزیر خزانہ کے منصب پر فائز ہونا قبول کیا تو قومی معیشت کو صحیح ڈگر پرگامزن کرنا اور عام آدمی کو کسمپرسی سے نجات دلانا ان کے لئے ایک چیلنج ہے۔ تحریک انصاف تیسرے قومی بجٹ کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نظرثانی کا تقاضا کیا ہے تو اُمید رکھنی چاہئے کہ اقتصادی بہتری آئے گی اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام و ملکی معیشت کو ’آئی ایم ایف کے شکنجے‘ سے نجات دلانے کا عزم عملاً اور حقیقتاً ’اصلاح احوال‘ کی صورت سامنے آئے گا۔