دوائی تو انسان کی سلامتی کیلئے ہوتی ہے۔ایک گولی روزانہ یا کوئی اور ہلکی گولیاں ہوں تو تین عدد روزانہ۔ نیند کی گولی ایک روز یا آدھی۔ مگر اسی سلامتی میں آدمی کی صحت کی تباہی اور بعض اوقات موت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس وقت جب گولی لینے کی یہی ترتیب بدل دی جائے۔ اگر یہی پلتا پورے کاپورا کھا لیا جائے تو نیند کی گولیاں ہمیشہ کیلئے سلا دیتی ہیں۔معاملہ ایک حد تک ہو اور خوبصورت ترتیب کے ساتھ ہو تو زندگی حسین ہو جاتی ہے۔ یہی فارمولا پوری زندگی میں ہر جگہ اپلائی ہوتا ہے۔پھر یہ کام خود کرنا بھی نہیں۔ جب تک کہ ڈاکٹر کی ہدایت موجودنہ ہو۔اپنے سے بہتر سمجھ رکھنے والے کی ہدایت پر چلا جائے تو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی چیز کازیادہ کردینا درست نہیں۔میانہ روی اور اعتدال ٹھیک طریقہ ہے۔نیند کی گولی بھی ایک کے بجائے دوکھانا شروع کردیں تو الٹا نیند ہی نہیں آتی۔ کیونکہ آپ نے اس کی مقدار زیادہ کردی ہے۔پھر تین تک بات جا پہنچتی ہے۔بلکہ اپنی مقررہ مقدار سے کم بھی کر دیں تو معاملہ خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اب اگر آدمی اپنی روزمرہ کی خوراک بھی اگر زیادہ لے۔مثلا ً ایک پلیٹ کھاتا ہے تو دو دو کھانا شروع کردے تو لازمی ہے کہ اوور ڈوز کی وجہ سے اس کے معدے پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور وہ ہسپتال کے بیڈ پر بھی جا سکتا ہے۔دوا ہو یا کھانے پینے کی چیزیں اپنے ہاضمہ اور اپنے ظرف کے مطابق لینا ہوتی ہیں۔ بات بہت لمبی ہوگئی ہے۔ مگر کہنا کچھ اور ہے۔ایک طالب علم جو ہمہ وقت کتابوں میں غرق رہے۔نہ تو گھر کو نہ گھر والوں کو وقت دے پائے۔بیوی بچوں کو ترک کر دے اور ایک کمرے میں مقیم ہو کر پڑھتا رہے۔وہ طالب بھی اوور ڈوز ہو جاتا ہے۔کیونکہ مطالعہ کیلئے ایک کچھ گھنٹے خاص ہونے چاہئیں۔ ہروقت کی پڑھا ئی بھی اچھی نہیں لگتی۔ لوگ آپس میں کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یا ر پڑھائی نے اس کے دماغ پر اثر کر دیا ہے۔اگر کوئی دکاندار کیوں نہ ہو مسلسل ایک ہی کام کی وجہ سے اس کے دماغ میں بھی خلل آ جاتا ہے۔اگر ہفتہ واری چھٹی نہ کرے تو یہ اچھی بات نہیں۔ از روئے قانون اس کو لازمی طور پر ایک دن دکان کو بند کرنا ہے۔کیونکہ اس تسلسل کی وجہ سے انسان سنگ دل ہونے لگتا ہے۔بلکہ صحت پر برے اثرات کی وجہ سے صحت بھی خراب ہو جاتی ہے۔باہر ملکوں میں ہفتہ اتوار دودن چھٹی ہوتی ہے۔مگر وہ اس سوچ میں ہیں کہ آدمی کو پھر بھی دو دن آرام کیلئے کافی نہیں کیونکہ اگر وہ اس طرح گھر میں وقت دیتا ہے تو اس سے اس کا دماغ فریش ہو جاتا ہے۔مجھے اس قسم کے بعض طالب علموں سے واسطہ پڑا ہے۔جو بے روزگاری کے دوران میں شادی کر بیٹھے۔ پھر اسی بیروزگاری میں ان کو مقابلے کے امتحان کیلئے پڑھائی بھی کرناہوتی ہے۔سو اس عالم میں نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے والی بات ہے۔اول تو جب طالب علمی کے دور سے گذر رہے ہوں او رآگے جانے کی تمنا ہو اور شدید ہو تو شادی کا جھنجٹ نہیں پالنا چاہئے۔ کیونکہ بندہ کوپڑھا ئی سے کام ہوتا ہے۔پھر بعد میں بال بچے داری ہو جاتی ہے اور پڑھنے والا باقی کا بھی کام سے نکل جاتا ہے۔اب وہ بیوی اور بچے کو پالے یا پڑھائی کرے یا نوکری ڈھونڈے۔چھوٹی موٹی نوکری بھی تو پندرہ ہزارتک ملتی ہے۔ ورنہ تو اس سے کم کی نوکریاں بھی ڈھونڈنے سے مل جائیں گی۔مگر گھر کاسکون برباد ہو جائے گا۔ خاص طور پر وہ طالب علم جو ابھی تعلیم سے فارغ ہوا ہو اور سی ایس ایس کی تیاری میں مصروف ہو۔مگر شادی بھی ہو چکی ہو بال بچے بھی ہوں اور کام کاج بھی نہ ہو۔ اس سے الٹا اس کے دماغ پر برا اثر پڑتا ہے۔آئے دن کی لڑائیاں معمول بن جاتی ہیں۔بیوی روٹھ کر میکے چلی جاتی ہے۔پھر اسے بچے کی خاطر سارے کام کاج چھوڑ چھاڑ کے کتابوں کو ایک طرف دھکا دے کر سسرال جانا پڑتا ہے۔اس قسم کی صورت حال ہو اورپڑھائی کا جنون بھی ہو تو شاید کامیاب ہونے کی بجائے ناکامی کا منہ دیکھنا ہوتا ہے۔