یہ ایک روز کا تو رونا نہیں ہے۔پھر ہفتہ کے سات دنوں میں کسی ایک روز کا سیاپا ہو۔یہاں تو خرید ار آنکھوں میں حیرانی کا سمندر لئے پریشان ہے۔کیا خریدے کیا خرید سکے۔چیزوں کے نرخ سن کر یا تو واپس چلا جائے گا۔ پھر یہ ہوگا کہ تھوڑا بہت خرید پائے گا۔ کیا کھائے گا کیا کھلائے گا۔بچے اس کی راہ تکتے ہیں۔اگر کہتے نہیں تو ان کی آنکھیں پوچھتی ہیں۔یہ کہانی ایک گھر کی تو نہیں۔یوٹیلٹی سٹور پر رش ہے۔ کیونکہ سنا ہے وہاں اشیاء سستی ہیں۔ مگر صرف سنا ہے دیکھا ہے تو فقط اتنا کہ وہاں تو نمبر ہی نہیں آتا۔چینی والوں پر کیس بنے ہیں مگر فیصلے ابھی تک خود انتظار میں ہیں کہ ہمیں کب ہونٹوں سے نیچے اتارا جائے گا۔ غربت ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔راشن تقسیم کرنے والے سرکاری اور پرائیویٹ لوگ شہریوں کے گھروں تک پہنچ رہے ہیں انھیں دکانوں پر بھیجنے سے پہلے راشن کے تھیلوں کے ٹوکن دے رہے ہیں۔ مگر یہاں تو وہ حال ہے کہ برا ہے۔ایک طرف کورونا کی تباہ کاریاں ہیں اور دوسری غربت کے تھپیڑے ہیں۔ جو منہ پر چانٹوں کی صورت لگ کر گالوں کو دائیں سے بائیں لال کئے جاتے ہیں۔مگر کہاں۔وہ بھی تو یہی سوچ رہاتھا کہ میں کروں تو کیا کروں۔ ہمیں تو اب ویرانوں میں نکلنا ہے۔ایک آدمی اور تھا جس نے ریکارڈ قائم کرنے کے لئے چالیس روز تک بھوکا رہناتھا۔ جنگلوں میں چلا گیا۔ مگر کمزوری اتنی ہوئی کہ ریکارڈ تو ایک طرف وہ خود موت کے منہ چلا گیا۔یہ روس کی سرزمین کی تازہ ترین کہانی ہے جو سامنے آئی ہے۔توکیا ہم نے اب ریکارڈ قائم کرنے کو نہیں تو غربت سے جان چھڑانے کیلئے اپنے گھنے گنجان اور رش بھرے شہر میں بھوکا رہنا ہوگا۔۔ کاروبار تو اول ہیں نہیں نوکریاں کہاں ہیں۔ اگر ہیں تو اتنے کم دیہاڑی کہ جس سے ایک آدمی کاپیٹ بھی پالا نہ جا سکے۔پھر وہ اس کمائی میں اتنے ٹبر کو کہاں سے پورا کریگا۔باہر کے ملک خوشحال ملک ہیں۔جہاں کسی کو غربت کا رونا نہیں آتا۔ کیونکہ وہاں تو غربت موجود ہی نہیں۔لندن کو لیں جرمنی کو لیں۔جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔وہاں تو بند دکانوں کا کرایہ بھی ملتا ہے۔اس کو پورا سپورٹ کرتے ہیں۔ جیب خرچ بھی ہمرا ہ کر دیتے ہیں۔وہاں تو سال پہلے مارچ میں لاک ڈاؤن تھا جو اب بھی جاری ہے۔کولن شہر میں ہمارے مہربان پشاور کے رحیم ہیں۔ ان سے معلومات ہوتی رہتی ہیں۔وہاں باقی جو بے روزگار ہیں ان کو تو ویسے بھی حکومت رقم دیتی رہتی ہے۔اتنا کہ انھیں کام کاج کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔لاک ڈاؤن سے پہلے جو رقم ان دکانداروں کے ہاتھ لگتی تھی اس منافع کودگناکر کے کورونا کی صورت ِ حال میں دکانداروں کو دیا جارہا ہے۔بہت عجیب باتیں ہیں۔ جو اپنی غریب معاشرت کے سامنے مان لینے پر دل نہیں کرتا۔ہمارے ہاں تو ان دنوں روزوں میں جو چیزیں پہلے سے مہنگی تھیں اور بھی گراں ہوئی ہیں۔پھر ہمارے ہیں کاروبار کے معاملے میں لالچ کے عنصر کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔یہاں اگر ایک روپے میں ان کا کام چلتا ہے تو وہ پچاس کمانا چاہتے ہیں۔اس لئے ان حالا ت میں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی نہ ہو یہ سوسائٹی کیسے ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔کسی کو کیا بتلائیں سب پر ایک طرح کی سرگذشت گذر رہی ہے۔ آٹے دال کا بھاؤ پتا چل گیا ہے۔مرغی کی قیمت کہاں سے کہاں اوپر کو اٹھ گئی ہے۔ہمارے ہاں تو یہ ایک روایت ہی رہی ہے کہ مشکل میں پڑے شہریوں کی مشکلات کو ختم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے اور اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔