لائق توجہ ۔۔۔۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے اندرون و بیرون ملک طب کی تعلیم (درس و تدریس) کے عمل‘ فارغ التحصیل ہونے والے معالجین (ڈاکٹروں) کے کوائف و اسناد کی تصدیق اور متعلقہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو قواعد و ضوابط کے مطابق نصابی و ہم نصابی سہولیات کی فراہمی کا پابند بنانے کیلئے نگران ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی کارکردگی پر اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور اِس ادارے سے وابستہ دو مرکزی فریقین (طلبہ اور ڈاکٹروں) کو اطمینان نہیں جبکہ حالیہ چند ہفتوں میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں عدالت کی جانب سے ’میڈیکل کمیشن‘ کے فیصلہ سازوں کی سخت الفاظ میں سرزنش کی گئی لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ  عدالتی ہدایات  کی روشنی میں ’میڈیکل کمیشن‘ اور دیگر حکومتی ادارے بشمول وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) و نیشنل اکاؤنٹی بیلٹی بیورو (نیب) بھی اپنا اپنا خاطرخواہ کردار ادا کریں۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کا نام تبدیل کرکے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ رکھنے‘ نیا قانون‘ نئے قواعد و ضوابط تشکیل اور وفاقی حکومت کے منظورنظر افراد پر مبنی نئی انتظامیہ کو تعینات کرنے کے باوجود بھی حالات جوں کے توں ہیں اور سوائے نمائشی تبدیلی (آن لائن وسائل کا زیادہ بہتر انداز میں استعمال) کوئی ایسی پیشرفت نہیں ہوئی جس سے کاروباری طبقات (نجی میڈیکل کالجز) کے مقابلے صارفین (طلبہ اور ڈاکٹروں) کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔لائق توجہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے 9 ایسے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یعنی درس و تدریس کی حسب قواعد سہولیات فراہم نہ کرنے جیسے معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود بھی کام کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ ’پی ایم سی‘ کے قواعد اِس لئے وضع کئے گئے تھے تاکہ طب کی تعلیم کو قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کے ذریعے معیاری بنایا جا سکے۔ میڈیکل کمیشن کے اِس فیصلے کو جو بات سب سے زیادہ متنازعہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ ایک ہی دن میں بغیر طریقہ کار پر عمل درآمد کئے اور قواعد و ضوابط کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا‘ جس میں فیصلہ سازوں اور نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے درمیان گٹھ جوڑ ہونا اب کوئی راز نہیں رہا۔ دستاویزی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 9 نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز جن کے نام ’داخلہ روکنے کی فہرست (بلیک لسٹ)‘ میں شامل تھے اور سابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی طرف سے انہیں بند کیا گیا تھا اور انہیں بند رکھنے کی بھی سفارش کی گئی تھی یا کسی بھی طرح کے کاروبار (تدریسی خدمات فراہم) نہ کرنے سے روک دیا گیا تھا تاہم میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) ایکٹ 2020ء کے اعلان کے بعد مذکورہ 9 اداروں کو گزشتہ سال سترہ دسمبر کو جاری 9 الگ الگ اعلامیوں (نوٹیفیکیشن) کے ذریعے عارضی طور پر داخلہ لینے کی اجازت دی گئی۔درسی و تدریسی سہولیات حسب قواعد موجود نہ ہونے کے باوجود جن میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز (نجی تعلیمی اداروں) کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ان میں شفا کالج آف ڈینٹسٹری اسلام آباد‘ ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج‘ رتھ فاؤ میڈیکل کالج کراچی‘ وطیم میڈیکل کالج راولپنڈی‘ خیرپور میڈیکل کالج خیرپور‘ عذرا ناہید ڈینٹل کالج لاہور‘ ڈاؤ ڈینٹل کالج کراچی‘ محمد ڈینٹل کالج میرپورخاص اور سوات میڈیکل کالج (سوات) شامل ہیں۔ کالجز کو پچاس سے ایک سو طلبہ کو اپنے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس پروگراموں میں داخلے کی اجازت تھی۔ پی ایم سی وقتاً فوقتا ًہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ساتھ پبلک سیکٹر کی میڈیکل یونیورسٹیز کو لکھے گئے اپنے خط میں یہ دعوی کرتا رہا ہے کہ اس کا میڈیکل کالجز کی وابستگی اور رجسٹریشن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک خط گذشتہ سال بیس اکتوبر دوہزار بیس کو پی ایم سی کے صدر  نے ایچ ای سی کے چیئرمین کو لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’کوئی کالج جو وابستگی حاصل کرنا چاہتا ہو اور یونیورسٹی جو وابستگی کی اجازت چاہتی ہو اس مقصد کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے رجوع کرسکتے ہیں اور ان کا معائنہ ایچ ای سی کے ذریعہ کیا جائے گا قومی احتساب بیورو (نیب) نے حال ہی میں کہا تھا کہ پی ایم سی ملک بھر میں میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کے یکساں معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں حالیہ داخلے (برائے تعلیمی سال 2021-22ء) میں ’پی ایم سی‘ کی جانب سے نجی اداروں کو 20 نمبر دینے کا اختیار دیا گیا اور اِس اختیار کا نجی اداروں نے ڈٹ کر استحصال کیا اور اُن طلبہ کی اکثریت کو داخلہ دیا گیا جن کی مالی حیثیت مستحکم تھی۔ جب اِس بارے میں متعدد داخلہ امیدواروں نے شکایات کیں تو نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز نے میرٹ فہرستیں خفیہ کر لیں اور طلبہ کو میرٹ کی بجائے ”پہلے آؤ پہلے داخلہ حاصل کرو“ کی بنیاد پر نئے تعلیمی سال میں شامل کر لیا گیا۔ جب تحقیق ہوئی تو تجویز کیا گیا کہ پی ایم سی کی جانب سے دیئے گئے 20 نمبر دینے کا اختیار غلط تھا اور اِس اختیار کے تحت دیئے گئے تمام داخلے منسوخ ہونے چاہیئں لیکن ایسا نہیں ہوا اور معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ طلبہ کا تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔ طلبہ اور اُن کے والدین مقررہ فیسوں سے زائد فیسیں ادا کرنے کے باوجود بھی غیریقینی کا شکار ہیں اور نفسیاتی دباؤ کے دور سے گزر رہے ہیں جس کا جلد خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ اِس پوری بحث میں سب سے قیمتی چیز یعنی وقت کا ضیاع ہو رہا ہے۔