افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلأ سے متعلق فیصلہ اپنی جگہ اہم لیکن اگر اِس انتہائی اقدام سے قبل سیاسی خلأ پُر نہ کیا گیا تو اِس سے صرف افغانستان کی داخلہ صورتحال ہی نہیں پاکستان میں بھی امن و امان متاثر ہو گا جیساکہ گزشتہ چند دنوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں افغان سرحد سے متصل علاقوں میں پاک فوج پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ دہشت گرد بزدلانہ حملوں سے پاک فوج اور پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے اور نہ اِن حملوں سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام ادھورا چھوڑا جائے گا لیکن افغان قیام امن کی خواہش میں پاکستان جو بھاری قیمت ادا کر رہا ہے اور جس انداز میں لہولہان ہے‘ اُس کی جانب بھی توجہ ہونی چاہئے اور عالمی طاقتوں کے سامنے یہ حالات رکھنے چاہئیں جن سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور عام شہری و معیشت متاثر ہیں۔توجہ طلب ہے کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور موقع ملتے ہی دہشت گردی کی کاروائیاں ”دہشت گردانہ لہر“ کا حصہ ہیں جس کی طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اشارہ کرتے ہوئے اس کے پس پردہ بھارت کی نشاندہی کی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانیت سوز مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے جبکہ بھارتی مظالم کے خلاف اور اپنے حق خودارادیت کیلئے کشمیریوں کی مزاحمت جاری ہے۔شک و شبے سے بالاتر ہے کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغان سرزمین بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کیلئے افغان امن عمل روح فرسا اور جان کنی کے مترادف ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سازشوں کی راہ میں بارڈر مینجمنٹ ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے۔ اسی کے ایما پر اشرف غنی انتظامیہ طفیلی کردار ادا کرتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔ باڑ لگانے والے فوجیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں جن میں کئی جوان اور افسر شہید ہو چکے ہیں۔ امریکہ طالبان امن معاہدے کی افغان حکومت کی طرف سے مخالفت بھی بھارت ہی کی انگیخت پر کی گئی امریکی افواج کا انخلاروکنے کی درخواست اور حکومتی مفادات پر حملوں کی ڈرامہ بازی بھی کی گئی۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ چند روز قبل بھی سامنے آیا۔ سرکاری افغان میڈیا نے ایک خبر جاری کی جس میں کہا گیا کہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کا انخلا شروع ہوتے ہی افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان کے حملوں میں تیزی آگئی ہے اور چوبیس گھنٹے کے دوران طالبان نے مختلف صوبوں زابل‘ قندھار‘ ننگرہار‘ بدخشاں اور تخار میں حملے کئے گئے ہیں۔ طالبان کے مبینہ حملوں میں بیس عام شہریوں کے ہلاکت کا دعوی کیا جا رہا ہے حالانکہ افغان طالبان کے زیرتسلط افغانستان کے اکثریتی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال حکومتی کنٹرول والے علاقوں سے بہتر ہے۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان سے انخلا کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ افغان انتظامیہ ہر صورت امریکی فوج کی موجودگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکی فوج وہ طوطا ہے جس میں اشرف غنی کے اقتدار کی جان ہے۔ بھارت اس سازش میں افغان حکمرانوں کے شانہ بشانہ ہے۔ امریکی انخلا کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوتے نظر آرہے ہیں۔ طالبان امن کے قیام اور امریکی افواج کے پرامن انخلا کا یقین دلا چکے ہیں۔ امریکہ کے پاس اب بھی وقت ہے پائیدار امن کیلئے مناسب سیاسی سیٹ اپ (شراکت اقتدار) ترتیب دینے کی کوشش کرے۔