شام سے پہلے رات

ہفتہ بھر تو موسم میں گرما کی تلخی گھلی رہی۔ مگر بعد میں تین دن سے شاندار تر وتازگی کے ساتھ موسم نے پہلو بدلا ہے۔تین روز سے یخ ہوائیں اور بادل گڑگڑائیں۔یہی کیفیت ہے۔ کاش یہ سلسلہ جاری رہے۔شروع کے روزے تو ٹھنڈے تھے۔درمیان کے بعد کچھ گرم ہوئے۔ اتنے کہ شہریوں نے افطاری میں شربت پینا شروع کر دیا اور وہ بھی ٹھنڈا ٹھار اور من ٹھار۔پھر اتنا تواتر کہ پیارے تو گلا ہی خراب کر بیٹھے۔ڈاکٹروں کے پاس رش زیادہ ہونے لگا۔اس برفیلی فضا میں گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر کھلی فضا میں ہوا لگ جانے سے اچانک بیمار ہوجانے کا الگ خطرہ ہے۔ستاروں کا احوال بھی وہ کیا جانیں گے جو موسم کے اتار چڑھا ؤ سے واقفیت نہیں رکھتے۔موسمیات کی کتاب میں لکھا تھا کہ ہوا چلے گی۔پھرسورج تو چمکے مگر ساتھ ہلکے بادل ہوں گے۔ کارخانوں کی جانب سے بارش آہستہ آہستہ روانہ ہوئی اور جی ٹی روڈ کے آخر پر واقع پُل تک پانچ منٹ میں پہنچ گئی۔ کیونکہ فرحان میاں اس وقت حیات آباد کے پُل پر تھے۔ وٹس ایپ کی ویڈیو بھیجی۔وہاں طوفانی بارش تھی مگر ہمارے ہاں ابھی ہوا کا چلن بلکہ چال چلن اور اس سے بڑھ کے چال ڈھال وہ نہ تھی۔ وہ جو بعد میں واقع ہوناتھی۔جس سے آندھی نے تباہی مچا دی۔ کھڑکیاں اور دروازے بجنا تھے۔ دوڑ دوڑ کر گھر کے مین گیٹ کو بند کرنے کی کوشش کی تو پھر کھولا دیکھنا چاہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو مل کر اس دروازے کو اندر کی جانب دھکا دے کر میرے ساتھ زور آزمائی کھیل رہے ہیں۔ مگر باہر تو کوئی نہ تھا۔”انداز ہو بہو تیری آواز پا کا تھا۔ باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا“۔یہ بات بھی تو نہ تھی۔ کیونکہ یہ تو ڈائنو سار کے منہ کی پھونک محسوس ہو رہی تھی۔بہت پیارے دن ہیں۔ عید تک رہیں کتنا اچھا ہو۔روزے مزید اچھے گذر جائیں۔عید بھی خوشگواری کے احساس سے تر بہ تر ہو۔ہاں مگر دوست عزیز تو اب کہیں جانے سے رہے۔ وہ تو عید پر اگر گھر سے چھانگلہ گلی کو چھلانگ لگانے نکلے تو انھیں کئی رکاوٹیں عبور کرنا پڑیں گی۔ جگہ جگہ ناکہ بندی کے ہاتھوں ان کے تو ناک میں دم ہو جائے گا۔کیونکہ پولیس کے باوردی اہلکار تو اب جگہ جگہ کھڑے ہوکر پشاور گرد نواح اور دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو اوپری مقامات پر جانے سے روکیں گے۔ کیونکہ کورونا کی کاٹ ابھی کند نہیں ہوئی۔”اک تیز چھری ہے کہ اترتی ہی چلی جائے“۔ اس چھری نے جس جسم کو سہلانے کواس پر ہاتھ رکھا وہاں چھری گہرائی میں اتر جائے گی۔مسئلہ غریب کا تو نہیں کہ وہ کدھر جائے گا۔ یہ تو تیز گھوڑے پر سوار ایک نوجوان کی طرح ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ گھوڑے کی باگیں سرے سے موجود نہیں کہ قابو میں کیا جاسکے۔نوجوان کے ترکش میں ڈھیروں تیر ہیں کہ کمان کے چلے میں جوڑ کر کس کے جو مارتا ہے تو جس کولگ گیا سو لگ گیا۔پولیس نے اس لاابالی نوجوان کے ستم گر ہاتھوں سے پبلک کو بچانا ہے اور کسی کو کہیں نہیں جانا ہے۔چلو اس بہانے اپنے پیارے تو اس سال عید پر گھر میں بیٹھیں گے۔کھائیں گے پیئیں گے زندگی کو انجوائے کریں گے۔یہ حضرات باز بھی تو نہیں آتے۔ جائیں گے اور جم غفیر لے کر پہاڑوں پر کوہ پیمائی کیلئے بال بچوں کے سمیت نکل کھڑے ہوں گے۔برا نہیں مگر یہ اچھا نہیں کہ ان دنوں جب ہمسایہ ملک سے تباہی کی داستانیں ورق ورق سنائی جا رہی ہیں۔ اسی لئے تو یہ نیا پیغام توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کہ سیاحت کی بجائے اس وقت صحت پر توجہ دینے کا وقت ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ جان ہے تو جہان ہے جان سلامت رہی تو سیاحت کے مزے کہیں نہیں گئے‘اندیشہ ہے کہ مہینے بھر میں خدا بچائے قاتل ہوائیں کہیں ہمیں بھی ثابت نگلنے کو یہاں در اندازی نہ کریں۔ مسافروں کو تو آنے سے روک دیا گیا ہے۔مغربی بارڈر پر بھی بندش ہے اور پیدل تک آنے جانے کی اجازت نہیں۔مگر ایک آدھ مسافر کہیں کھسک کر یہاں کی سرزمین کو اپنی بیماری کی حالت میں چھو گیا تو چھو منتر ہوگا اور تصویر کے سب رنگ یک رنگی کیفیت میں زرد پڑ جائیں گے دودن تو شام سے پہلے رات کا سین نظر سے گذرا۔جب افطاری سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی اندھیرا چھا جاتا اور دکانوں بازاروں کی رات کو جلنے والی بتیاں اپنی پوری آب وتاب سے شام سے قبل ہی روشن ہو جاتیں۔ اب تلک موسم کی یہ دلکشی آنکھوں میں گھل مل گئی ہے اب دیکھیں آگے بھی اگر ایسا ہو تو کتنااچھا ہو۔