افغان صدر اشرف غنی نے فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والے کالم میں امریکی افواج کے انخلا اور اس کے ممکنہ اثرات و امکانات، طالبان سے وابستہ توقعات، عبوری حکومت اور اس کو درپیش مشکلات، مستقبل کے امکانات، پاکستان اور اپنی ترجیحات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ان کے خیالات چند امور پر خوش گمانی، چند پر بدگمانی، چند پر مبالغہ آرائی ا ور چند ایک سے چشم پوشی پر مبنی ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے پیشکش کی ہے کہ میری حکومت طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہے اور اگر اس سے امن آسکتا ہے تو میں اپنی مدتِ صدارت وقت سے پہلے ختم کرنے کیلئے تیار ہوں اور آئندہ صدارتی انتخابات میں امیدوار بھی نہیں ہوں گا۔ اگر اشرف غنی واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو اس سے طالبان اور حکومت کے درمیان بات چیت کے آغاز کی راہ جلد ہموار ہوجائے گی۔انہوں نے صدر بائیڈن کی جانب سے گیارہ ستمبر تک امریکی افواج کی واپسی کو ملک اور پڑوسیوں کیلئے لمحہ تغیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اس فیصلے کا احترام کرتی ہے اور اسے اپنے لیے، افغانوں کیلئے، طالبان اور خطے کیلئے خطرے اور موقع کا لمحہ سمجھتی ہے۔ان کے بقول "افغانستان سے پہلے بھی انخلاء ہوتے رہے ہیں۔ 2014 میں میری صدارت کے آغاز پر بھی ایک لاکھ تیس ہزار امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء ہوا جس نے افغان قیادت کو سلامتی کے شعبے اور ہمارے عالمی شراکت داروں کے قائم کردہ اداروں کی مکمل نگرانی کا موقع دیا۔ تب سے افغان کی دفاعی اور سلامتی قوتوں نے نہ صرف جمہوریہ کی حفاظت کی ہے بلکہ دو قومی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن بنایا۔ آج ہماری حکومت اور سلامتی کی قوتیں سات سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں اور ہم امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان عوام کی خدمت اور دفاع کیلئے مکمل مستعد ہیں۔ یہ انخلاء افغان عوام کیلئے حقیقی اقتدار اعلیٰ کے حصول کا موقع بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فیصلے نے طالبان کو حیرت زدہ کردیا اور انہیں ایک راستہ چننے پر مجبور کردیا ہے۔”اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ قابل اعتماد حصہ دار بنیں گے یا وہ مزید افراتفری پیدا کریں گے۔ اگر طالبان دوسرا راستہ چنیں گے تو افغان افواج ان سے لڑیں گی۔افغان صدرنے طالبان سے چند سوالوں کے جواب بھی طلب کئے‘کیا وہ انتخابات قبول کریں گے؟ کیا وہ تمام افغانوں بشمول لڑکیوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا وعدہ کرتے ہیں؟ طالبان کی جانب سے اپریل کے آخر میں استنبول کانفرنس کے بائیکاٹ سے ان سوالوں کے منفی جواب ملے۔ لگتا ہے طالبان امن سے زیادہ طاقت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سیاسی تصفیہ اور طالبان کا معاشرے اور حکومت میں ادغام واحد راستہ ہے لیکن فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ افغان 1990 کی دہائی کی خوفناکیوں میں واپس نہیں جانا چاہتے۔ تمام عالمی حصہ دار اور افغان عوام ایک مقتدر، اسلامی، جمہوری، متحد، غیر جانبدار اور منسلک افغانستان چاہتے ہیں۔ افغان عوام نے ایسی ریاست کیلئے اپنی حمایت اگست 2020 کے لویہ جرگہ میں دکھائی جبکہ عالمی برادری نے مارچ 2020 میں اپنی خواہش کا اظہار کیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قراداد نمبر 2513 منظور کی۔اشرف غنی نے درست نشان دہی کی ہے کہ مذاکرات کیلئے ایک باوثوق اور غیر جانبدار ثالث کی ضرورت ہوگی۔ یہ بات افغان حکومت اور طالبان کے مابین دوحہ میں ہونے والے مذاکرات سے بھی واضح ہوئی ہے کیوں کہ وہاں کے مذاکرات میں ایسا ثالث موجود نہیں جس کی وجہ سے بات چیت بند گلی میں پھنس چکی۔ اس کردار کیلئے سب سے موزوں اقوام متحدہ ہوگی۔ مذاکرات کے اولین عنوانات ریاست کی مطلوبہ حالت کا حصول اور ایک جامع جنگ بندی کا نفاذ ہے جو افغان عوام کی روزمرہ زندگیوں میں امن و راحت لاسکے اور امن عمل پر یقین اور بھروسے کو بحال کرسکے۔ چونکہ امن مذاکرات کے دوران اکثر جنگ بندی ناکام ہوجاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کی بین القوامی نگرانی کا بندوبست کیا جائے۔ پھر فریقین کو عبوری انتظامیہ پر بحث اور فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ لازمی ہے کہ جمہوریہ کا ڈھانچہ سالم رہے مگر عبوری حکومت امن انتظامیہ نظم و ضبط اور تسلسل قائم رکھے گی جبکہ انتخابات منعقد کرے گی۔ یہ عبوری انتظامیہ مختصر دورانیہ کیلئے ہوگی اور جیسے ہی صدارتی، پارلیمانی اور مقامی انتخابات کے ذریعے ملک کی نئی قیادت منتخب ہوجائے یہ ختم ہوجائے گی۔ میں اس انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گا اور میں اپنی مدت کے سرکاری اختتام سے پہلے صدارت سے مستعفی ہو جاؤں گا۔"صدر اشرف غنی درست سمجھتے ہیں افغانستان کی عبوری قیادت کو حکومت کرنے کے طریقہ کار کے سلسلے میں کئی سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ معاشی ترقی، تعلیم اور صحت کی خدمات اور ریاست کے دیگر اہم کاموں کو بغیر کسی مداخلت کے جاری رکھنا ہو گا۔ کسی بھی رکاوٹ کے افغان عوام اور معیشت کیلئے تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ نئی ترجیحات بھی ہونگی جیسے جنگی قیدیوں کی رہائی، طالبان کے ارکان کی حکومت، فوج اور معاشرے کے ہر سطح پر انضمام اور گذشتہ دو دہائیوں کی جنگ کے دوران ان لوگوں کی شکایات کو دور کرنا جو اپنے پیاروں، املاک اور معاش سے محروم ہو گئے ہیں۔ پھر نئی منتخب حکومت کو امن برقرار رکھنے اور معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی اہم ذمہ داری ملے گی۔ اس کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ آئین واضح کرتا ہے کہ ریاست کے اسلامی کردار اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو چھوڑ کر باقی سب کچھ میں ترمیم ہوسکتی ہے اوریہ تبدیلیاں لانے کیلئے طریقہ کار بھی دیا گیا ہے۔ نئی حکومت مہاجرین کی بحالی، اندرون ملک بے گھر لوگوں کی آباد کاری، اور قومی مفاہمت کے اکثر نظرانداز ہونے والے معاملے سے بھی نمٹے گی۔ دریں اثنا، عبوری جنگ بندی کو ایک ایسی صورتحال کو راستہ دینا ہوگا جس میں ریاستی ادارے طاقت کے استعمال پر اجارہ داری رکھتے ہوں اور افغانستان کو علاقائی تنازعات کے خطرے کو کم کرنے کیلئے مستقل غیر جانبداری کا عہد کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل افغانستان کی غیر جانبدار حیثیت کے قیام اور اس کو باقاعدہ بنانے کیلئے ایک مثالی مقام ہوگا۔‘اسی موضوع سے جڑی مزید گزارشات اگلے کالم میں پیش کی جائیں گی۔