قیامت جوہم پہ گزر گئی۔۔۔

معزز قارئین کرام ایک طویل وقفے کے بعدزیر نظر کالم کے ذریعے نہ صرف آپ سے ٹوٹا ہو رابطہ ایک بار پھر جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ آپ سے رجوع کرنے اور اس ٹوٹے ہوئے تعلق کی بحالی پر طبیعت کی آمدگی کا سہرا بھی آپ سمیت ان دیگربہی خواہوں اور ہمدردوں کے سر ہے جو مجھ ناچیز سے مسلسل رابطہ رکھ کر اگرایک جانب میرا دکھ دردبانٹنے میں معاون بنے تو دوسری طرف یہ ان ہی دوستوں کی محبت اور شفقت کی برکت ہے کہ آج تقریبا ً دو ماہ کے صبر آزما تعطل کے بعد یہ ٹوٹے پھوٹے اور منتشر الفاظ اس کالم کے توسط سے آ پ کی خدمت میں پیش کررہاہوں۔ دراصل یہ گزشتہ 26فروری جمعتہ المبارک کا با برکت دن تھا جب میں ایک مصروف ترین دن گزار کر تھکاہاراگھرلوٹا۔ رات کا کھانا معمول کے مطابق بچوں کے ساتھ مل کر کھایا۔ دسترخوان  پر ہی بچوں سے انکی آج کی مصروفیات مثلاً ہوم ورک،آمدہ امتحانات کی تیاری اور خاص کر نمازجمعتہ المبارک اورسورۃ الکہف کی تلاوت کے بارے میں استفسار کے بعد جب میں حسب عادت اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوا  تو تھوڑی ہی دیر بعد میری بڑی بیٹی مشکات میرے سر پر آ کھڑی ہوئی اور اپنے مخصوص انداز میں مجھے فورا ً بستر سے نکل کرباہر صحن میں واک کا حکم دینے لگی۔ میں نے اسکی منت سماجت کرتے ہوئے یہ کہہ کر آج کی واک سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ بیٹا آج میں بہت تھکا ہوا ہوں اور کل چھٹی ہونے کے باوجودمیں نے علی الصبح گھر سے بعض ضروری کاموں کیلئے نکلنا ہے اسلئے آج مجھے واک سے چھٹی دے دو،میں نے جان چھڑانے کیلئے اس سے یہاں تک کہا کہ کل چونکہ چھٹی ہے لہٰذامیں جلد واپس لوٹ کر دوپہر میں ایک ڈیڑھ گھنٹے آرام کے بعد رات کو ڈبل واک کر لوں گا لیکن ہرکسی خاص کر مجھ سے اپنی بات منوانے میں چونکہ اس کاثانی نہیں تھا اس لئے بالا ٓخر مجھے ہتھیار ڈال کر اسکے ساتھ واک کیلئے نکلنا پڑا، چونکہ میں یہ واک محض اسکی خواہش اوردباؤ پر کر رہا تھا اس لیئے ٹہلتے ہوئے میری رفتار وہ نہ تھی جو عموماًہوتی تھی،ایک دو مواقع پر اس نے مجھے نہ صرف ٹوکا کہ ابو واک اس طرح تھوڑی کی جاتی ہے جس طرح آپ کر رہے ہیں بلکہ وہ باقاعدہ ہاتھ سے پکڑ کرمجھے جلدی جلدی قدم اٹھانے پر مجبور بھی کرتی رہی۔ ایک موقع پر جب اسکی والدہ نے کچن سے فراغت کے بعد واک میں ہمیں جوائن کیا تو اس نے میری حالت دیکھ کر مشکات سے کہاکہ بیٹی اس بیچارے پر رحم کرتے ہوئے آج کی واک سے اسے معافی دے دو لیکن وہ بھلا کب کسی کو خاطر میں لانے والی تھی اس نے تو چند دنوں سے مجھ پر شام کی واک لازماًکرنے کاحکم جاری کررکھاتھا جس پر وہ اپنی زندگی کی آخری رات تک قائم رہی۔روزانہ واک سے فراغت کے بعدمیں عموماً چائے کا ایک کپ پی کر اپنے کسی کام میں مصروف ہو جاتا تھا جبکہ وہ اپنے سکول کے کام اور میڑک کے امتحانات کی تیاری میں جت جاتی تھی۔ اس رات چونکہ مجھے سونے کی جلدی تھی اس لئے میں نے چائے کا کپ مشکات کو دیتے ہوئے کہا کہ آج چونکہ تم نے مجھے واک سے جلدی چھٹی دے دی ہے اس لئے یہ کپ رشوت میں قبول کر لو اس ہنسی مذاق میں میں نیند کی آغوش میں چلا گیااور وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔رات کے آخری پہرکروٹ بدلتے ہوئے جب تھوڑی دیر کیلئے میری آنکھ کھلی تومیں نے دیکھا کہ مشکات معمول کے مطابق کتابوں اور کاپیوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھائی میں منہمک تھی،آنکھ دوبارہ لگنے کے تھوڑی ہی دیر بعدایک زوردار دھماکہ سے میں اٹھ بیٹھاکیا دیکھتاہوں کہ سارے کمرے میں آگ ہی آگ ہے،سامنے دیکھا تو مشکات اورمیری اہلیہ کے دوپٹوں اورکپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی،اسی اثناء  مشکات چیخ و پکار کر تے ہوئے انتہائی حواس باختہ حالت میں کمرے سے باہر کی جانب لپکی چندثانیے مبہوت رہنے کے بعدمیں جوں ہی مشکات کے پیچھے کمرے سے باہر نکلا تو مجھے فوراً خیال آیا کہ کمرے میں تو میرے دو دوسرے بچے بارہ سالہ سالار اور آٹھ سالہ عائشہ بھی موجود تھے لہٰذا میں جلتی ہوئی آگ میں کمرے میں دوبارہ داخل ہوا جہاں میں نے دیکھا کہ سالار تو باہر نکل گیا ہے البتہ عا ئشہ آنکھیں ملتی ہوئی کھڑی رو رہی تھی میں نے اسے گود میں اٹھا کر صحن میں پہنچایا۔اسی دوران جب میں نے مشکات کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھ کر صحن کے ساتھ ملحق باتھ روم سے بالٹی میں پانی بھر کر اس پر انڈیلاتو میں نے محسوس کیاکہ وہ بری طرح جھلس چکی ہے جس پرمیں اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھا تھا۔ اہل محلہ اور رشتہ داروں کی مدد سے خیبرٹیچنگ ہسپتال کی ایمرجنسی سے برن سنٹر حیات آباد منتقلی اوریہاں طبی امداد کے دوران شاید مجھے آرام کا انجکشن لگا دیا گیا تھالہٰذاجب میں ہوش میں آیا تو میں فیز فور حیات آباد میں واقع اپنے چچا کے گھر بستر پر پڑا تھا جہاں میرے دونوں ہاتھ اور ٹانگ پٹیوں میں بندے ہوئے تھے جب کہ میراچہرہ جل کرسوجھا ہو ا تھا، تھوڑا سنبھلنے کے بعد چونکہ مشکات کی چیخ و پکار کا و ہ آخری منظر جب میں نے اس پر پانی کی بالٹی انڈیلی تھی بار بار نگاہوں کے سامنے آکر مجھے مسلسل پریشان کر رہاتھااس لئے میرے بار بارکے اصرارپر بتایا گیا کہ مجھے اور عائشہ کوتوضروری مرہم پٹی کے بعد ڈسچارج کردیا گیا ہے البتہ مشکات، میری اہلیہ اور سالار فی الحال ہسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں ڈاکٹرز نہ صرف ان کی مناسب دیکھ بھال کررہے ہیں بلکہ ان کی حالت بھی خطرے سے باہر ہے۔