بڑے امتحان کے نتائج۔۔۔۔

سنٹرل سپیرئرسروس(CSS) کو اگر بڑا امتحان کہا جائے تو بے جانہ ہوگا سی ایس ایس امتحان 2020کے نتائج کا اعلان ہوا تو ایک بار دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی کہ امتحان میں پاس ہونے والوں کی شرح بمشکل دوفیصد ہے یعنی 1.98فیصد پاس ہوئے جبکہ98.02فیصد کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس حوالے سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے جو اعداد وشمار جاری کئے انکی رو سے18553اُمیدوار امتحان میں شریک ہوئے ان میں سے376کو تحریری امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی۔جنہیں انٹرویو کیلئے بلایا گیا۔انٹرویو کے بعد جب کامیاب اُمیدواروں کا نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ 155اس میدان میں فیل ہوئے صرف221کو کامیابی نصیب ہوئی آپ 18ہزار سے نیچے کا سفر کرکے 1800 پر آئیں ، 1800سے تنزلی کی راہ لیکر 376پر آئیں مزید تنزلی کا سفر طے کر کے 221 پر آئیں تو آپ کو یقینامایوسی ہوگی کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے کس معیار کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ آرہے ہیں؟فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین ہرسال صدر مملکت کورپورٹ پیش کرتا ہے رپورٹ میں امتحا ن میں شامل ہونے والے طلباء اور طالبات کے معیار کا تفصیلی جائزہ شامل ہوتا ہے۔اس میں بعض اعلیٰ درجے کے لطائف یا کتائف بھی ہوتے ہیں فیل ہونے والوں کے غلط جوابات کی مثالیں بھی ہوتی ہیں۔سالانہ رپورٹ کے آخر میں کمیشن کے اراکین کے سفارشات بھی ہوتی ہیں مگر یہ رپورٹیں ایوان صدر کی الماریوں میں رکھی جاتی ہیں ان کی تعلیمی اداروں کو ہوا نہیں لگنے دی جاتی۔یہ رپورٹیں اگرسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھیج دی جاتیں مختلف سطحوں پر ان رپورٹوں کے جائزے کیلئے سیمینار اور مذاکرے رکھے جاتے تو اگلے سالوں کیلئے بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی تھی لیکن ایسا کھبی نہیں ہوا۔ CSS کا پُرانا نام سول سروس آف پاکستان(CSP) تھا اس کے ذریعے ملک بھر کے سرکاری محکموں کیلئے آفیسروں کی بھرتی ہوتی تھی،بھرتی کے بعد آفیسروں کی تربیت ہوتی ہے تربیت کے بعد ان کو ترقی کے مواقع دئیے جاتے ہیں کسٹم‘انکم ٹیکس‘ پوسٹل سروس،ریلویز،آفس مینجمنٹ‘ انفارمیشن‘ ٹریڈ اینڈ کاز آڈٹ اینڈ اکاونٹس وغیرہ گروپوں کے نام عام آدمی کی نظروں میں بہت کم آتے ہیں فارن سروس،پولیس سروس آف پاکستان اور پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس(PAS)کانام عموماً کوچہ وبازار میں لیا جاتا ہے۔بی اے ایس کاسابقہ نام ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (DMG) تھا اس گروپ کے آفیسروں کو اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنراور کمشنر لگایا جاتا ہے اس لئے عوام کا اس گروپ کے ساتھ زیادہ واسطہ پڑتا ہے مشہور ادیب،افسانہ نگار اور دانشور قدرت اللہ شہاب انگریزوں کے زمانے میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایم جی گروپ میں شال ہوئے تھے۔مشہور مصنف مختار مسعود،سی ایس پی آفیسر تھے۔دیہی ترقی کے دو بین لاقوامی ماہرین ڈاکٹر اختر حمید خان اور شعیب سلطان خان بھی ڈی ایم جی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کہکشاں میں ستاروں کی کمی نہیں یہ کہا جائے توبے جانہ ہوگا کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے جو ہرقابل کا جو بہترین گروپ نکلتا ہے وہ سی ایس ایس کرلیتا ہے۔تازہ ترین نتائج کا موازنہ اگر گزشتہ 20سالوں کے نتائج سے کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس بڑے امتحان میں پاس ہونے کی شرح 5فیصد سے اوپر نہیں جاتی البتہ2فیصد سے کم بھی نہیں ہوتی آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟غوروفکر کے بعد ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام انحطاط سے دوچار ہے۔سکول،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلباء اور طالبات کو بنیادی ہنر (Skill) کے طورپر بولنے اور لکھنے کی مہارت نہیں سکھائی جاتی۔اور سی ایس ایس کے امتحان میں یہی دومہارتیں کام آتی ہیں۔بڑے امتحان کا تازہ ترین نتیجہ آنے کے بعد سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر اس موضوع کے حوالے سے باقاعدہ مذاکرے ہونے چاہئیں تاکہ ہماری آنے والی نسل کو معیاری تعلیم ملے۔