کیا سے کیا ہوگیا۔۔۔

کاریں کہاں تھیں۔جیسے کسی چہرے پر ایک آدھ تل ہو یوں خال خال تھیں۔بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا۔ دنیا تو رنگین تھی۔ مگر ان کیمرہ ابھی رنگوں کی بہار نہ تھی۔ کسی کے پاس شیورلیٹ گاڑی ہوتی۔ پھر مرسڈیز تو شاید ہی کسی ایک کے پاس ہوتی۔ مزدا جو اب موجودہ دور میں ڈھونڈے سے شاید ایک ملے وہ اس وقت کی چلنے والے بہترین کار شمار ہوتی۔ ان شیورلیٹ اور مرسڈیز پر تو پٹرول ہمہ وقت صدقے نثار ہوتا۔ مگر مزدا اور ٹویوٹا گاڑیوں میں تیل کی کھپت گذارا حال تھی۔ پھر سوزوکی پک اپ آ گئی تو دنیابدل جانے کااحساس ہونے لگا۔ مگر یہ بھی ہر کسی کے پاس نہ تھی۔ کم از کم پینتالیس سال سے تو میں سوزوکی پک اپ کو ایسا ہی دیکھ رہاہوں جیسی یہ گاڑی اب ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے لٹک کر ہم اپنے گھر باڑہ تحصیل کے گیٹ سے نکل اندرون باڑہ عالم گدر میں اپنے سکول جاتے۔تھوڑا پیچھے جائیں تو سڑکوں پر گاڑیاں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ بسیں تھیں مگر وہ بسیں جو آج ہیں وہ کہاں تھیں۔پھر راستے بھی طویل تھے۔ ایبٹ آباد اور راوالپنڈی جاتے تو کار میں پانچ گھنٹے لگ ہی جاتے۔ ہم بھی والد کے ساتھ ان کے ٹرانسفر کے سلسلے میں پورے صوبے میں گھومے پھرے۔ اتنا کہ اس کے برے اثرات اگر کہیں واقع ہوئے تو ہماری پڑھائی اورسکولنگ پر۔ تبادلہ مردان ہوا تو ابھی تین ماہ نہ گذرے اور ہم سکول بھی داخل نہ ہوئے کہ وہاں سے دوبارہ تبدیلی ہو گئی۔تبادلوں والے سرکاری ملازمین کے بچوں کا یہی المیہ تھا کہ ان کی پڑھائی لکھائی پر بہت زد پڑتی۔ایبٹ آباد میں تھے تو وہاں سے پشاور میں ایمرجنسی کی صورت سپیشل کار میں آتے تو گھنٹوں سفر میں رہ کر تھک ہار جاتے۔مولوی جی ہسپتال ہمارے بچپن میں جی ٹی ایس کی سرکاری بسوں کا اڈہ تھا۔ راوالپنڈی جانا ہو تو یہاں آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ٹکٹ لو اور دیگرسواریوں کا انتظار کرو۔ کیونکہ بس بھری جائے تو جائے۔ اس زمانے میں بسیں بھی تھیں بہت کم کاریں بھی تھیں راستے بھی تھے مگر مسافر نہ تھے۔پشاور کے کسی بندہ کو پنڈی میں کیا کام اور ایبٹ آباد میں اس نے کیا کرنا تھا۔یہاں کے رہنے والے یہیں رہتے تھے او ریہیں رہ گئے۔ جو ان کے بعد آئے وہ کہیں سے کہیں نکل گئے۔ یہ تو ہوتا ہے۔بندہ جب اپنی جگہ پر بیٹھارہ جائے تو بیٹھا رہ جاتا ہے۔ سوچ نہ تھی امنگیں نہ تھیں۔ جوملا آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اورکھا لیا۔پھر ذرا غنودگی چھائی تو ٹانگیں لمبی کر کے سو گئے۔بہت زیادہ ہوا تو اچانک یا اپنی عمر پر پہنچ کر ہمیشہ کیلئے ٹانگیں سیدھی کر کے اکڑ گئے۔یہی زندگی تھی۔ کار میں سفر کرنا تو بہت بڑی بات تھی بہت بڑا کام تھا بہت بڑی عیش تھی جو ہر ایک کو میسر نہ تھی۔ اس کے بعد ہم لوگ اسی شہر کے رہنے والے بائی سائیکل پر سوار ہو گئے۔ عام آدمی کے پاس کار نہ تھی مگر کسی کسی کے پاس سائیکل ضرور تھی۔۔کاروں کے ساتھ عوام کے بہت کم لوگ سائیکل چلاتے۔ اتنا کہ ہمارے چچا جوایک ڈیپارٹمنٹ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے دفتر جاتے تو سائیکل پر جاتے تھے۔ پھر انتقال تک وہ سائیکل چلاتے تھے۔ سائیکل بھی تو ہماری نہیں۔ اس کانام دیکھیں۔اگر ہماری ہوتی اس کا نام ہم نے دیا ہوتا۔ مثال کے طور پر دو پہیہ گھوڑا کہتے۔ مگر انگریزوں کی چیز ہے سو انھیں کا نام چلتا ہے۔ بلکہ آج دو ہزار اکیس میں چین میں سائیکل ہی کا راج ہے۔ وہاں بڑے افسر اور سیاسی اور حکومتی افراد سائیکل پرآتے جاتے ہیں۔ بائی کا مطلب دو ہے اور سائیکل کا مطلب گول دائرہ۔ مگر اب تو ہم نے اپنے خون پسینے کی کمائی کے پیسے باہر ملکوں کو دے دے کر وہاں سے کاریں منگوا لی ہیں۔ ان گنت اور بے شمار اور سستی اور مہنگی۔خود بھی نقل سے بنالی ہیں۔بینکوں نے تو قیامت ڈھا دی ہے۔ وہی سڑکیں جو پہلے خالی ہوا کرتی تھیں آج یہاں پیدل چلنا تو جیسے بہت براکام ہو۔کیونکہ وہاں تو گراں قیمت کاریں چلتی ہیں۔ایک کمپنی کے درجنوں الگ الگ ڈیزائن کی موٹر کاریں۔ پھر آسان قسطوں پر دستیاب ہیں۔ شہر میں جیسے صور پھونک دیا گیا ہو ہر آدمی دوڑ رہا ہے اور وہ بھی کاروں میں۔وہ کاریں بھلا اس زمانے میں کوئی چلائے تو خود کو کتنا برا لگے گا۔ ہاں کسی کے پاس شوقیہ طور پر پرانی کار ہو تو ہو۔وگرنہ تو اب ان مزدا ٹویوٹا‘ شیورلیٹ اور مرسڈیز کاروں کو چلانا تو الٹا الزام ہی بن جائے گا۔