اک ملول سا چہرہ 

 آج کل سرِ شام ٹی وی سکرین پر افطاریاں بنتے ہوئے دکھلاتے ہیں۔چولھے ہلکی آنچ پر جل رہے ہوتے ہیں۔منڈپ پر نان سٹک ہنڈیا دھری ہو تی ہے۔ ساتھ شیشے والے جار میں کٹی ہوئی مرغی بوٹیوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔پھرآگے مختلف کمپنیوں کے ٹماٹر کیچ اپ اس میز کو خوش نما بنا رہے ہوتے ہیں۔بریانیاں پک رہی ہوتی ہیں۔وہ ناظرین جن کے گھر صاف پانی میسر نہیں ہوگا۔ ان کو اس سیج پر مشروبات اور کولڈ ڈرنک کی سیل بند بوتلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ جن کو پیٹ بھر روٹی میسر نہیں وہ یہاں حرکت کرتی ہوئی یہ موویاں دیکھ کر اندر اندرجلتے کڑھتے ہیں۔ بچے بچیاں جن کو ایک وقت کی میسر ہے تو دوسرے ٹائم کا پتا نہیں۔ یہ لوگ ان پروگرامات کو دیکھ کر اندر سے کٹ مرتے ہیں۔وہ ساتھ میں بیٹھے ہوئے بہن بھائی کو تو نہیں بتلاتے کہ میں تو احساسِ کمتری کاشکار ہو گیا ہوں۔ یہ تو ایک معاشرتی رویہ ہے جس کے بارے میں خود مریض کو بھی اطلاع نہیں ہوتی کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہوچکا ہے۔کہیں پکوڑے پک رہے ہیں اور کہیں کباب تیار ہو رہے ہیں۔پھر کہیں ڈش اور باؤل میں پنیر کے قتلے تل کر ڈالے جا رہے ہیں۔ اس کارگذاری کیلئے وہ کھانے پکانے والی کسی ماہر خاتون کسی شیف کو بلا لیتے ہیں۔ وہ اینکر کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور ہنستے ہنساتے ڈشیں تیار کرتے ہیں۔ جب کوئی نیا پکوان بن جاتا ہے تو پھر تالیاں بجائی جاتی ہیں۔ مگر ان کواحساس نہیں کہ ہم نے تالیوں کی گونج سے کتنوں کے دل توڑ دیئے ہیں۔کتنے لوگوں کو جن میں بچیاں ہیں اور وہ بچے جن کو یہ ضرورت کی چیزیں میسر نہیں ہم نے ان کو اندر سے برباد کر دیا ہے۔ہمیں اس معاملے میں تھوڑی سی سمجھ بوجھ ہونی چاہئے۔مانا کہ ٹی وی کی اپنی ضروریات اور مجبوریاں ہیں۔ مگر اک ذرا دوسروں کا خیا ل کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔وہ شعر تو آپ نے سنا ہوگاکہ ”اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو۔رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں“۔دوسروں کاخیا ل کرناچاہئے۔ اگر ہم ان کی مدد نہیں کر سکتے تو ان کو احساسِ محرومی کی اندھی اور پرپیچ گلیوں میں دھکیل دینا کہاں کی دانش ہے۔آج کل تو ہر گھر میں ٹی وی کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔بلیک اینڈ وائٹ سہی مگر لوگ تفریح حاصل کرنے اور ڈرامے وغیرہ دیکھنے کیلئے ٹی وی سکرین سے آنکھیں چپکائے ہوتے ہیں۔ پھر بچوں کو شیطانیوں سے دور رکھنے کیلئے ماں باپ ان کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیتے ہیں۔ تاکہ یہ بچہ لوگ مصروف رہیں اور والدین کوتنگ نہ کریں۔گھروں کی بچیاں افطاری تیار کرنے کے پروگرام توبہت شوق سے دیکھتی ہیں۔ماناکہ ہر آدمی کی آمدن بجٹ خرچ وغیرہ دوسرے گھر سے مختلف ہو تاہے۔لیکن اس کے باوجو دسب ٹی وی تو ضرور دیکھتے ہیں۔ ناظرین کی بڑی تعداد کے ہوتے ہم ناجائر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم اپنا سامان بیچنے کی غرض سے وہ حرکتیں کرتے ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتیں۔ایسی حرکتوں سے دور رہنا چاہئے۔ہم خود مجرم بناتے ہیں۔یہی لوگ جو احساسِ کمتری کاشکار ہوجاتے ہیں۔ان میں سے بعض بڑے ہو کرجرائم کی دنیا کی طرف موڑ کاٹ لیتے ہیں۔پھر ان کے ماں باپ پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔وہی بچے گھرمیں والدین سے وہی چیزیں تونہیں مانگتے جو ٹی وی میں پکوان کے طور پر دکھاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ بچے اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں بچھے ہوئے دستر خوان پر الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں۔ پھر اما ں باوا ان کو دیکھ کر خود احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔پھر کوئی والد اس سے برا اثر لیتا ہے۔خواہ دفتر ہو یا کوئی اور مقام وہ کرپشن کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔کیونکہ اس سے اپنے بچوں کا احساسِ کمتری نہیں دیکھا جاتا۔بچے کے اپنے گھر سائیکل نہیں۔مگر وہ اپنے کسی رشتہ دار کے گھر جاتا ہے تو وہاں کے بچے سائیکل چلاتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ بچہ کھیل کھیل میں ان سے گھل مل جاتا ہے۔پھر جب ان کی سائیکل لینے کیلئے آگے ہوتاہے تو اس کو وہ بچے اپنی سائیکل کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے۔بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ خواہ جس گھر کے ہوں۔عام طور پرسب بچوں کی ایک ہی سوچ ہوتی ہے۔اس کا والد یا والدہ اس موقع پر اپنے عزیزوں کے ساتھ ہنس کر باتیں کرتے یہ منظر دیکھ لیتے ہیں۔ اندر سے ان کا دل پھٹ جاتا ہے۔ان کے دل میں خواہش جاگتی ہے کہ کسی طرح بھی ہو سکے تو میں اپنے بچے کو یہ مہنگی سائیکل نہ سہی سستے والی خرید کردوں۔ مگر کہاں۔یہاں تو جہاں جاؤاتنی مہنگائی ہے کہ توبہ توبہ۔اس لئے دل کی وہ خواہش ماں باپ کے دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ اس تمام بحث کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے پروگراموں کا کوئی مثبت پہلو ہی نہیں۔ ان پروگراموں سے بہت سے لوگ استفادہ کرتے ہیں جو گھر بیٹھے طرح طرح کی لذیز پکوان بنانے کی مہارت حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں اور ان پروگراموں سے ان کا مقصد حاصل ہوتا ہے اس طرح مختلف حوالوں سے صحت بخش کھانوں کی ترکیبیں بھی فائدہ مند ہیں کیونکہ اکثر بیماریوں کی بڑی وجہ غیر متوازن غذائی عادات ہوتی ہیں جن کی نشاندہی ان پروگراموں میں کی جاتی ہے۔