اسلام آباد: وفاقی حکومت نے منی لانڈرنگ کے کیسز کیلئے غیر ملکی ایجنسیوں اور قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ منی لانڈرنگ سے متعلق ایف اے ٹی ایف کی باقی ماندہ 3 شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا۔
اس کے تحت ملکی اورغیر ملکی پرائیویٹ ایجنسیوں اور قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی جب کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات تخریب کاری کے لیے کی جانے والی فنانسنگ میں استعمال ہونے پرمقدمات قائم کیے جائیں گے۔
یہ مقدمات چلانے کیلئے قانونی ماہرین کے علاوہ متعلقہ محکموں کے افسران کی خدمات بھی لی جائیں گی۔
بتایا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ کیسوں کو چلانے کیلئے ایک مرکزی اثاثہ ریکوری آفس بھی بنایا جائے گا، جہاں اینٹی نارکوٹکس فورس، کسٹم، آئی آر ایس، ایف آئی اے اور نیب کے افسران کو تعینات کیا جائے گا جب کہ ضبط شدہ مال کی نگرانی کیلئے الگ سے عملہ تعینات کیا جائے گا۔
نیب اور ایف آئی اے کی رہنمائی کیلئے لا آفیسرز مقرر کیے جائیں گے اس کے علاوہ پراپرٹی کی قیمتوں کے تعین کیلئے مارکیٹ سے ایجنسیوں کی خدمات بھی لی جائیں گی۔
دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دینے کا مطالبہ کردیا، آئی ایم ایف نے کہا کہ ڈالر کا مارکیٹ ریٹ ضروری ہے، قرض پروگرام کے بیشتر اہداف پر عملدرآمد ہوا، انسداد منی لانڈرنگ اوردہشتگردوں کی مالی معاونت کے ایکشن پلان پرعملدرآمد کیا جائے،کورونا کی وجہ سے 3 اہداف جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس اصلاحات، ایف ایٹی ایف پلان پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی۔
بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے دوسرے تا پانچویں جائزہ مشن کی رپورٹ جاری کر دی ہے، جس کے تحت 2022 کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات کرنا ہوں گی، پاکستان کو سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس میں اصلاحات کرنا ہوں گی، پاکستان کی موجودہ مانیٹری پالیسی درست ہے، اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دینا ہوگی جب کہ ڈالر کا مارکیٹ ریٹ ضروری ہے۔