ایف آئی اے نے نیشنل بینک ملازمین کو دیے گئے قرضوں کی ریکوری کی تحقیقات شروع کردیں

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی جانب سے اپنے ہی ملازمین کو قرضے دینے اور پھر قرضوں کی وصولی کے لیے وکلا کو بھاری رقوم ادا کرنے کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ایجنسی کے کمرشل بینک سرکل نے سرکاری بینک کو ہونے والے دوہرے نقصان پر نیشنل بینک کے کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

ایف آئی اے نے نیشنل بینک آف پاکستان سے ایسے معاملات میں انتظامیہ کی طرف سے عام طور پر کیے جانے والے اقدامات کی وضاحت طلب کی ہے جب کہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ملازمین کو قرض دیتے وقت بینک کے ذریعہ حاصل کردہ ضمانت کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

ایف آئی اے نے یہ تحقیقات اس وقت کیں جب متعدد افراد نے شکایت کی کہ نیشنل بینک آف پاکستان، قرضوں کی وصولی کے لیے ہائر کردہ وکلا سے متعلق تفصیلات سامنے نہیں لارہا ہے، ان افراد کی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت جمع کرائی گئی درخواستوں کے جواب میں بینک نے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

انتظامیہ سے پوچھے گئے سوالات میں وکلا کو 3 لاکھ روپے سے زائد کی پروفیشنل فیس کی ادائیگی کے بارے میں پوچھا گیا اور ساتھ یہ سوال بھی کیا گیا ’کیا بینک نے اس طرح کے واقعات کے لیے وزارت قانون کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کیا‘؟

ایف آئی اے نے انتظامیہ سے کہا کہ وہ این بی پی بورڈ کی جانب سے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت کی تفصیلات پیش کریں۔

تاہم، این بی پی نے ابھی تک ایف آئی اے کے سوالات کا جواب جمع نہیں کرایا ہے۔