تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے حکومتی فیصلہ بھاری معاشی نقصان کا سبب ہو سکتا ہے۔
روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، پاکستان کی جی ڈی پی کی روزانہ کی ویلیو 342 ارب روپے ہے، اس میں 190ارب روپے کا نقصان ہو جاتا ہے تو پھر باقی بچا کیا ہے۔
اس کا بریک اپ یہ ہے کہ جی ڈی پی کی گروتھ میں 144روپے کا نقصان ہے۔ برآمدات میں روزانہ 16ارب روپے،ٹیکس وصولیوں میں 26 ارب روپے،براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں تین ارب روپے، زرعی شعبہ میں بھی روزانہ 26 ارب روپے، صنعتی شعبہ کو 20.4 ارب روپے، سروسز میں نقصان کا تخمینہ 66 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
اگر توڑپھوڑ ہوتی ہے یا حکومت خود توڑ پھوڑ کرتی ہے تو حکومتی اخراجات کتنے اضافی ہوں گے، یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس وقت ریاست پاکستان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے غیر یقینی کی جو صورتحال ہے، شاید پاکستان میں اس طرح سے پہلے کبھی نہ تھی، آئے روز احتجاج، دھرنے، لانگ مارچ اور اس طرح کی چیزیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
آج اسلام آباد میں تحریک انصاف کا جو احتجاج ہونا ہے، اس سے دو روز پہلے ہی کم از کم اسلام آباد، پورا پنجاب اور موٹر ویز کو حکومت سے سیل کر دیا ہے، میرے خیال میں جو ان کے مشیر ہیں لگتا ہے کہ ان کی زیادہ ہمدردی مظاہرین کے ساتھ ہے، نہ کہ حکومت کے ساتھ ہے۔
ایک تو جو حکومت پیش کر رہی ہے کہ کیوں یہ احتجاج نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم بیلاروس کے صدر کی میزبانی کر رہے ہیں جو پیر کے روز پاکستان کے تین روزہ دورے کا آغاز کر رہے ہیں اور ان کا ابتدائی وفد آج پاکستان پہنچ رہا ہے، یہ دورہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ بیلاروس کے صدر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے اہم اتحادی ہیں۔