اشرف غنی کے الزامات اور حقائق۔۔۔۔

فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والے کالم میں افغان صدر اشرف غنی نے لکھا ہے کہ”افغان امن مذاکرات چند مسائل کا سامنا کریں گے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ معاہدے میں انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ شامل ہو جسے خطے کے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت حاصل ہو۔ اس طرح مذاکرات کے دوران اعلی سطحی علاقائی سفارت کاری کا تسلسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ذاتی نمائندے کی شمولیت یقینی بنانی ہوگی۔ جب افغان حکومت اور طالبان کسی معاہدے پر پہنچ جائیں اور افغان عوام لویہ جرگہ کے ذریعے اس کی توثیق کریں تو اس کے بعد معاہدے پر عمل درآمد یعنی قیام امن کا کٹھن کام شروع ہوگا۔“اشرف غنی طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بھی تنقید کرتے ہیں،اشرف غنی جانتے ہیں مگر بوجوہ انجان بن رہے کہ پاکستان کا اب افغان طالبان پر کوئی خاص اثرو رسوخ باقی نہیں رہا اور اگر پاکستان اور طالبان کے رابطے مکمل منقطع ہوجائیں تو پاکستان افغان امن میں پھر مدد کیسے کرسکے گا۔ پھر افغانستان میں قیام امن اور انسداد دہشت گردی پر عالمی طاقتیں اور خطے کے ممالک بھی متفق ہیں اور اقوام متحدہ بھی میدان میں ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں اصل مشکلات، جن سے اشرف غنی نے چشم پوشی کی، یہ ہیں کہ افغان رہنما اقتدار اور مفاد کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں، وہاں بدعنوانی عروج پر ہے جبکہ غربت بڑھ چکی۔ افغانستان میں مسائل کی بنیادی وجوہات بیرونی جارحیت، اندرونی سازشیں اور عدم برداشت ہیں لیکن اس پر اشرف غنی خاموش ہیں۔ اشرف غنی کے بقول کئی خطرات ہیں جن کی وجہ سے امن عمل پٹڑی سے اتر جانے کا امکان ہے۔ ”پہلا یہ کہ کسی غیر یقینی صورتحال کا تصور بہت سارے افغانوں کو ملک چھوڑنے کی طرف مائل کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا 2015 جیسا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور ملک ایک ایسے وقت میں قابل لوگوں سے محروم ہوجائے گا جب اسے ان کی انتہائی ضرورت ہو۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ایک منتشر یا غیر منظم منتقلی سیکورٹی شعبے میں کمانڈ اور کنٹرول کیلئے خطرہ بن سکتی ہے چنانچہ اختیارات کی منتقلی ایک منظم سیاسی عمل کے ذریعے ہو تاکہ سکیورٹی فورسز قیادت اور رہنماء سے محروم نہ رہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انخلاء کے بعد امریکہ اور نیٹو افغان سیکورٹی فورسز کو مالی مدد فراہم کرنے کے اپنے وعدے پورے کریں۔ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ افغان رہنما سیاسی عمل کے پیچھے جرات کے ساتھ کھڑے ہونے سے ہچکچائیں چنانچہ امن عمل میں نہ صرف اندرونی سیاسی شخصیات اور افغان معاشرے کے مختلف طبقات بلکہ وہ سب علاقائی کردار بھی شامل ہوں جو اس عمل کو خراب کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ تاہم سب سے بڑا خطرہ طالبان کا غلط اندازہ ہے۔ وہ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے نیٹو اور امریکہ کو شکست دی ہے لہٰذا خدشہ ہے کہ طالبان سیاسی معاہدے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور اس کی بجائے مسلح جارحیت جاری رکھیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم میدان جنگ میں ان کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار ہیں افغان صدر نے تحریر میں اپنی کمزوریوں کوچھپانے اور دوسروں پر الزمات کاسلسلہ جاری رکھا ہے۔اشرف غنی ظاہر ہے اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی تسلیم کرنے سے تو رہے تو وہ آئندہ بھی پاکستان پر الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی بنیادی ضرورت، خواہش اور کوشش ہے۔ ایک خودمختار، جمہوری، متحد، غیر جانبدار اور پر امن افغانستان جتنا پاکستان کیلئے ضروری ہے اتنا شاید ہی کسی اور ملک کیلئے ہو۔ امریکہ، روس اور چین سب افغان امن کیلئے پاکستان کے خلوص اور کوششوں کے معترف ہیں مگر بھارت کی شہہ پر افغانستان پھر بھی پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے اس پر الزامات لگا رہا ہے۔