گزشتہ کالم سے پیوستہ موضوع کو آگے بڑھا رہا ہوں‘چچا کے گھر طبیعت کچھ سنبھلنے کے بعد جو کوئی بھی ملاقات کیلئے آتا اس سے دیوانہ وارہسپتال میں زیر علاج تمام زخمیوں بالخصوص مشکات کے بارے پوچھتا۔ہر کوئی طفل تسلی دیکر بتاتا کہ سب کی حالت خطرے سے باہر ہے اور انشاء اللہ سب جلد ٹھیک ہو جائینگے لیکن میرا دل کم ازکم مشکات کے حوالے سے ان تسلیوں کو ماننے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اس کو آخری بار میں نے جس اذیت ناک کیفیت میں دیکھا تھا اس کی وہ حالت یاد آکرنہ صرف میری تشویش میں مسلسل اضافہ کئے جارہی تھی بلکہ مجھے رہ رہ کرمشکات کی زندگی کے وہ شب وروز بھی شدت سے یاد آکرستارہے تھے جس کے دوران میں نے بچپن سے لیکر اب تک اسے بڑی چاہ اور محبت سے پالا پوسا تھا اور جس کے ناز و نخرے اٹھاتے ہوئے میں ہمیشہ ایک خاص سرور اور لطف محسوس کرتا تھا اور جس کا وہ موقع بہ موقع بھرپورفائدہ بھی اٹھالیتی تھی اور جس پر اس کی والدہ اکثر مجھ سے لڑ جھگڑ کر بات اپنے اس غصے کے اظہار پر ختم کرتی تھی کہ تمہاارے اسی لاڈ پیا ر اور حد سے زیادہ رعایت نے اسے ضدی بنا دیاہے۔ میں مشکات کی ان ہی یادوں میں گم تھا کہ ایسے میں میرے چھوٹے بھائی میجر عالمزیب ملنے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ اگر مشکات کویہاں مناسب ٹریٹمنٹ نہیں مل رہی تو پلیزاسے کھاریاں کینٹ کے مشہوربرن سنٹر منتقل کردو چاہے اس پر جتنا بھی خرچہ آئے اللہ تعالیٰ اس کابندوبست کردے گا لیکن اس کے علاج میں کوتاہی نہیں آنی چاہئے۔ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ اس دوران کوئی فون لیکر آیا اور مجھے بتایا کہ تم ویسے ہی پریشان ہوتے ہو دیکھو مشکات ٹھیک ٹھاک ہے لو اس سے بات کر و اس وقت یہ میری زندگی کا قیمتی ترین لمحہ تھا جب میں مشکات کی آواز سن کر اپنے فرط جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زاروقطار روتے ہوئے مشکات سے اسکی خیریت اور کیفیت پوچھنے لگا وہ بھلی مانس میری حالت بھانپ کر اس تشویشناک حالت میں بھی الٹا مجھے دلاسہ دینے لگی اس نے اپنے مخصوص جذباتی انداز میں کہا کہ ابو میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں آپ کیسے ہیں اس نے مجھے کہا کہ آپ بالکل فکرنہ کریں انشاء اللہ ہم سب جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔ مشکات کی یہ تسلی بھری اور ہوش و حواس پر مبنی باتیں سن کر مجھے یوں محسوس ہواگویاوہ اتنی متاثر نہیں ہے جتنا کہ میں سمجھ رہا ہوں حالانکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی کیونکہ ڈاکٹروں کے بقول جس وقت وہ مجھ سے فون پر انتہائی پرسکون اور بظاہرنارمل انداز میں بات کررہی تھی اس وقت تک اس کا91فیصد جسم جل چکا تھااور وہ عملاً موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھی لیکن نہ جانے اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی کون سی طاقت عطا کردی دی تھی جس کے بل بوتے پر وہ تادیر نہ صرف ہم سب اوراپنے قریب موجود افرادسے گفتگو کرتی رہی بلکہ اس کی اس کیفیت سے ہم نے اپنے طور پریہ غلط اندازہ بھی قائم کرلیا تھا کہ اس کی حالت اب شاید خطرے سے باہرہے۔ مغرب کے وقت میجر عالمزیب نے مجھے بتایا کہ ان کی برن سنٹر کھاریاں کینٹ کے کمانڈنٹ سے بات ہوگئی ہے جنہوں نے انہیں کہاہے کہ برن سنٹر پشاور میں جو سہولیات دستیاب ہیں وہ کسی بھی طور کھاریاں کے برن سنٹر سے کم نہیں ہیں لہٰذا مریض کو کھاریاں شفٹ کرنے کارسک لینے کی بجائے فی الحال اسے یہیں پہ رکھاجائے البتہ حالت کچھ بہتر ہونے پر مزید علاج کیلئے اسے کسی بھی وقت کھاریان شفٹ کیا جاسکتا ہے۔اس واضح تسلی اور خاص کر مشکات سے فون پر میری ہونے والی گفتگو نے جہاں میری ڈھارس بندھائی وہاں میں اپنے تئیں یہ سمجھ کر قدرے مطمئن ہوگیا کہ اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے اور انشاء اللہ وہ جلدہی صحتیاب ہوجائے گی۔البتہ دوسری جانب جوں جوں شام کے دھندلکے پھیل کر رات کی تاریکی میں تبدیل ہورہے تھے تو ں توں نہ صرف میرے ایک ایک انگ میں درد کش ادویات کااثر ختم ہونے پردرد اور جلن کی شدید ٹھیسوں میں اضافہ ہورہا تھا بلکہ پیش آنے والے واقعے کاایک ایک لمحہ بار بار آنکھوں کے سامنے گھوم کرجہاں میری پریشانی میں مسلسل اضافہ کر رہاتھا وہاں اس کیفیت نے مجھ سے نیندکو بھی کوسوں دور کردیا تھا۔یہ رات شاید میری اب تک کی زندگی کی سب سے طویل اور بھیانک رات تھی جو میرے چاہنے کے باوجود نہ توکٹنے کانام لے رہی تھی اور نہ ہی مجھے آرام دینے پر آمادہ نظر آ رہی تھی۔صبح تقریباً پانچ چھ بجے کے درمیان میرے چچا پاس آ کر قرآن وحدیث کے حوالے دے کر مجھے یہ اطلاع دینے کیلئے ذہناً تیار کرتے رہے کہ میری لخت جگر مشکات ہمیشہ کیلئے مجھ سے چھن چکی ہے مجھے یہ موقع یاد کرتے ہوئے اب بھی عجیب تعجب ہوتا ہے کہ پتا نہیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی کون سی قوت ودیعت کردی تھی کہ میں نے نہ صرٖ ف مشکات کی جدائی کی اطلاع بغیر کسی آہ وفغاں کے برداشت کرلی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے میرے قلب وجگر پر اطمینان وسکون کا ایساپاھابھی رکھ دیا تھا کہ میں اپنے پاؤں پرچل کرباہر سڑک پر کھڑی ایمبولینس میں مسکراتے چہرے کے ساتھ بے سدھ پڑی مشکات کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہنے کے قابل بھی ہوا۔بچے ویسے توہرکسی کو پیارے ہوتے ہیں لیکن ہم جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کا چونکہ جینامرنااور زندگی کی ہر خوشی اور غم اپنے بچوں سے جڑے ہوتے ہیں لہٰذا ایسے میں ایک جگر گوشے کی یوں اچانک رخصتی جہاں گہرے دکھ درد کاپہلو لئے ہوئی ہے وہاں اس طرح غیرمتوقع پر جدا ہونا اب بھی ایک ڈراؤنا خواب معلوم ہوتاہے۔