سیاست: پرانا کھیل‘ نئے ضابطے۔۔۔۔۔

سیاست میں کچھ بھی حرف ِآخر نہیں ہوتا لیکن جس انداز اور تیزی سے پاکستانی سیاست اور واقعات تبدیل ہوتے ہیں شاید ہی دنیا کی کسی دوسری جمہوریت میں ایسا ہوتا ہو اور عیاں ہے کہ سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی ہوں یا حزب اقتدار کی‘ ایک دوسرے کے مفادات کی محافظ ہیں۔ اِس منظرنامے کے کئی دلچسپ پہلو ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں بنیادی بات یہ ہے کہ ’نئے سیاسی کھیل کے ضابطے‘ کیا ہوں گے یہ طے ہونا باقی ہے۔شہباز شریف کی ضمانت اور لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جہاں اہمیت کا حامل ہے وہیں شہباز شریف کو لندن جانے سے روکنا بھی دلچسپ ہے۔ آخر کیا وجہ ہوئی کہ عدالت کے حکم کے باوجود ہوائی اڈے پر قائد حزبِ اختلاف کو روک لیا گیا۔ اُس سے بھی دلچسپ کہ شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باہر جانے کی اجازت‘ اور تفصیلی فیصلے میں شہباز شریف کیلئے یہ جملہ کہ پبلک آفس ہولڈر کو 100 فیصد مسٹر کلین ہونا چاہئے۔ درحقیقت ضمانت دینے کا فیصلہ شہباز شریف پر عائد مالی بدعنوانیوں کے تمام الزامات کو ختم کر رہا ہے جو وقتاً فوقتاً اُن پر لگائے گئے اور جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 55 ضخیم دستاویزات کی صورت محفوظ ہیں لیکن شہباز شریف کے مقدمے میں حکومت عدالتوں کو بالکل اُسی طرح قائل نہیں کر سکی جس طرح نواز شریف کے کیس میں اُن کی بیماری کے بہانے کو کھوج نہیں سکی اور وہ نہایت ہی سہولت سے برطانیہ پھسل گئے اور برطانیہ میں زیرعلاج نہ ہونے کے باوجود آج تک واپس نہیں آئے! قانون کا کس انداز سے استعمال کیا گیا اور قانون کو کس انداز سے چکما دیا گیا یہ سبھی موضوعات پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ میں نئے نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک نئے آئین کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔شریف خاندان کے اثاثے اُن کی آمدن سے زائد ہیں لیکن عدالت ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے اور آمدن سے زائد اثاثوں کے ثبوت کہاں ہیں کیونکہ تاحال نیشنل اکاونٹی بیلٹی (نیب) یہ ثبوت عدالت میں پیش نہیں کر سکی جس کی وجہ سے عدالت کو کہنا پڑا کہ ”نیب نے بے دلی سے کام کیا ہے مگر ثبوتوں کا انتظار رہے گا۔“ یہ مرحلہ طے ہوا تو وزیراعظم نے جدہ سے واپس آتے ہی شہباز شریف کی روانگی پر اجلاس کیا اور حدیبیہ پیپر ملز کیس کو ایک مرتبہ پھر شروع کرنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔حالات پر نظر رکھنے والوں کا تجزیہ ہے کہ ملکی سیاست میں کچھ بھی ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔اس قسم کی باتیں اِس وجہ سے ہو رہی ہیں کیونکہ معیشت خراب ہے۔ خطے کے حالات بدل رہے ہیں۔ نئی خارجہ پالیسی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ سیاسی حالات میں ناکام پالیسیوں کا بوجھ منتقل کرنے کی ضرورت یا پھر عوام کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال تک پہنچنے کیلئے پیپلز پارٹی پہلے سے تیار اور نواز لیگ اختلافات کے باوجود مزاحمت بصورت مفاہمت کی جانب متوجہ ہے۔ نواز لیگ میں موجود 2 بیانیوں کی جنگ اب حتمی مراحل میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شہباز شریف کی جیل سے واپسی کے بعد نواز لیگ کی اکثریت ’مفاہمت‘ پر رضامند ہے اور کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے جس سے اُن کی پکڑ آمدن سے زائد اثاثہ جات میں نہ ہو اور وہ احتساب سے بچ جائیں۔ یہی وجہ ہے نواز لیگ میں یہ بیانیہ زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے کہ مزاحمت کے بعد اور آئندہ عام انتخابات سے قبل جماعت کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا اور اُس کیلئے ’یکساں ماحول‘ کی دستیابی کے ساتھ تبدیلی کا موقع بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہئے۔ اپنے مفاہمتی بیانیے کو منوانے کیلئے شہباز شریف کو پارٹی کے اندر اور باہر جنگ لڑنا پڑی ہے تاہم اب نواز لیگ کے قائد نواز شریف کی رضامندی باقی ہے جس کیلئے شہباز شریف برطانیہ جانا چاہتے ہیں کیونکہ شہباز شریف پہلے ہی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لے چکے ہیں۔ پنجاب اور وفاق میں اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت پیپلز پارٹی اور جہانگیر ترین گروپ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آئندہ عام انتخابات سے قبل پنجاب میں تبدیلی کی لہر نواز لیگ کو سیاسی استحکام (فائدہ) دے سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے داخلی جھگڑوں سے نواز لیگ کو فائدہ اُٹھانے کیلئے کچھ غیرروایتی فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ پنجاب میں تبدیلی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وفاق میں تبدیلی کی راہ ہموار کر دی جائے۔