اسلام آباد میں طویل عرصہ سفارتی ذمہ داریاں نبھانے والے سعودی سفارتکار ڈاکٹر علی عواض العسیری کی تحریر ’عرب نیوز‘ میں شائع ہوئی ہے جس میں اُنہوں نے وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کے آخری 2 دوروں اور سعودی ولی عہد کے دورہ اسلام آباد کا ذکر کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہم آہنگی کا تذکرہ کیا ہے اور سابق سفیر نے یاد دہانی کروائی ہے کہ ”سعودی عرب مسلم دنیا کیلئے اسلام کا دل ہے اور کوئی دوسرا ملک اس ٹائٹل پر حق نہیں جتا سکتا۔ او آئی سی 57 اسلامی ملکوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اور اس کے متبادل بلاک بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ بیانیہ بالکل غلط ہے کہ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر پر کچھ نہیں کیا۔“۔ڈاکٹر عواض العسیری نے سعودی عرب پاکستان تعلقات بحالی کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’خوش قسمتی سے دونوں ملکوں کے پاس رابطے کے روایتی اور غیر روایتی چینلز موجود ہیں جو کسی بھی طرح کی غلط فہمی یا جان بوجھ کر تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔‘ سعودی سفیر پاکستان کے لئے ماضی میں دی گئی مالی مدد کا بھی ذکر کرنا نہ بھولے اور کہا کہ سعودی عرب اور عرب امارات نے 2 ارب ڈالر کے قرضے اگلے سال تک بڑھا دیئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے حالیہ (ساتویں) دورے کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو پچاس کروڑ ڈالر کے ”آسان قرضہ“ دینے کا وعدہ کیا حالانکہ کہ قرضہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور پاکستان کی سعودی عرب سے وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے قرض نہیں بلکہ امداد دی جانی چاہئے تھی تاہم پاکستان شکرگزار ہے کہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ماضی میں دیئے ہوئے دو ارب ڈالر واپس نہ لینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی رقم بجٹ تیاری میں تو شاید کوئی بڑی مدد نہ دے سکے تاہم موجودہ حالات میں یہ بھی بڑا ریلیف ہے کہ کم سے کم دو ارب ڈالر واپس نہیں مانگے جا رہے۔ وزیراعظم پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ اعلامیے کا پہلا اعلان سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل کا قیام ہے۔ بظاہر یہ بڑا اعلان نہیں لیکن اگر اس کونسل کے کام کاج کے قواعد (میکنزم) بنا لئے جائیں اور اسے فعال کیا جائے تو دونوں ملکوں کے اقتصادی‘ سماجی اور ثقافتی تعاون میں اضافہ ممکن ہے۔ مذکورہ کونسل کا قیام اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ کونسل اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ کار ہوگی۔ اگر سعودی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطے اس فورم کے ذریعے مضبوط بنائے جاسکیں تو یہ واقعتاً اہم فورم ہوگا۔ مذکورہ اعلامیہ میں دوطرفہ تعلقات کو سکیورٹی سے ہٹ کر دیگر شعبوں تک پھیلانے کی بھی بات کی گئی جن میں توانائی‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ زراعت اور ثقافت شامل ہیں۔ اس حوالے سے کسی ٹھوس اور بڑے معاہدے کا ذکر نہیں ہوا۔ دونوں ملکوں کو تعلقات کی نوعیت جیو اسٹریٹجک سے جیو اکنامک میں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس صورت میں ہی مستقبل میں دونوں کی عشروں پرانی دوستی مزید گہری اور معتبر ہوسکتی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ یہ مسلم دنیا کا پرانا اور اصولی مؤقف ہے جس کا اعادہ کیا گیا ہے لیکن اِس قسم کے روایتی جملوں اور تذکرے سے اسرائیل کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاک سعودی قیادت نے شام اور لیبیا میں سیاسی حل کی حمایت کی ہے۔ یہ دونوں معاملات سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ ترکی کیلئے بھی اہم ہیں اور پاکستان کو یہاں توازن کی ضرورت پڑے گی۔ یمن کے مسئلے کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد اور گلف انیشی ایٹو کی تائید کی گئی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور ایران کے درمیان عراق کی میزبانی میں مذاکرات جاری ہیں جس کی تصدیق اب خود سعودی وزارتِ خارجہ نے بھی کردی ہے۔ مشترکہ اعلامیے کا سب سے اہم حصہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہے‘ جس میں کہا گیا کہ ولی عہد نے دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کی فوجوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے سمجھوتے، جو دوہزارتیرہ کے سمجھوتے پر مبنی ہے کو سراہا‘ دونوں طرف سے پاک بھارت مذاکرات پر زور دیا گیا تاکہ دیرینہ تنازعات بشمول جموں و کشمیر کو پرامن طور پر حل کیا جاسکے سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران جن بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ذکر کیا گیا تھا‘ حالیہ اعلامیے میں اُس کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا بس ایک مبہم سی سطر میں کہا گیا کہ ”پاکستان میں توانائی‘ ہائیڈرو پاور جنریشن‘ انفرااسٹرکچر‘ ٹرانسپورٹ اینڈ کیمونیکیشن اور واٹر ریسورس منیجمنٹ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک (مفاہمتی یاداشت) پر دستخط ہوئے۔ ایم او یوز کے بعد سرمایہ کاری تک کا ایک طویل عمل ہوتا ہے جس کیلئے سفارتی تگ و دو کی ضرورت ہے۔