آج تو بچوں کو بولیں کہ عید کارڈ کیا ہوتا ہے۔ اس پر وہ خاموش ہو کر منہ تاکتے ہیں۔ کہتے ہیں ہائیں عید کارڈ یہ کیا ہے۔آج کی نئی نسل تو اس نایاب و ناپید و کمیاب جنس سے واقف ہی نہیں۔یہ تو ہم تھے جو عید کارڈ کی قدر و قیمت سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس کو ہر چھوٹی عید پردل و جان سے عزیز رکھتے۔ دوسروں کے آئے ہوئے عید کارڈوں کو آنکھوں سے لگا کر رکھتے۔ سال بھر جب تک آئندہ عید نہ آتی اس کو الماری کے خفیہ خانوں میں سے نکال کر دیکھا کرتے۔ ہائے وہ زمانہ وہ لوگ کچھ بھی تو نہ رہا۔ جب یہ حال ہے تو اب بتلائیں کہ نئی نسل جو عید کارڈ کا نام سن کر حیران ہوتی ہے ٹھیک ہی کرتی ہے۔آج تو موبائل کی رنگینیوں میں ہزاروں عید کارڈ بطور وال پیپر موجود ہیں۔ ایک سے ایک اچھا اور پچھلے سے بڑھ کر خوبصورت۔ہم اپنے بچپن میں اپنے علاقے ہی میں کوچی بازار میں آخری روزوں سے پہلے نکل جاتے۔ وہاں ہر دکان کے باہر سٹال لگے ہوتے۔قسم قسم کے عید کارڈ آنکھوں کو بہار دکھلا رہے ہوتے۔ سادہ کارڈ بھی اور مہنگے بھی۔سو روپے میں یا کچھ اوپر شاندار عید کارڈ مل جاتا۔ پھر جو اپنے پیاروں کو بھیجنا ہوتا تو جاکر خیبر بازار کے پچھواڑے کٹھے پر ایاز پینٹر سے اس پر کندہ کاری کروا کر اور اس پر رنگ بکھیر کر خوبصورت انداز کی تحریر لکھوا لاتے۔کبھی تو گھر ہی میں یہ فریضہ انجام دیتے۔ پھر اپنے دور دراز کے کزنوں کو ڈاک خانہ کے ذریعے بھجوا دیتے۔ ڈاکخانہ والوں کا اعلان ہوتا کہ فلاں تاریخ کے بعد کوئی عید کارڈ وصول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ لاکھوں کروڑوں عید کارڈ وں نے بذریعہ ڈاک جانا ہوتا۔ ان اہلکاروں پر بھی کام کا بوجھ ہوتا کہ عید سے پہلے اگلے کو عید کارڈ مل جائیں۔ یہاں ہم سوچتے رہ جاتے کہ یار اس سال تو انھوں نے عید کارڈ بھجوا یا ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے ڈاک میں تاخیر ہو گئی ہو۔چلو عید کے بعد آجائے گا۔پھر واقعی عید کے بعد کارڈ کی وصولیابی ہوتی۔کبھی کسی کارڈ پر ننھی منی بتیاں بھی جل رہی ہوتیں۔ کارڈ بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا۔ ہر فیملی میں جن کے عزیز دور دیس میں رہائش پذیر تھے ان کووقت پر کارڈ بھجوانا ہوتے کہ پھر دیر ہو جائے گی اور ڈاکخانہ والے بھی لینے سے انکار کر دیں گے۔ دونوں اطراف پورے ملک میں کارڈوں کی ارسال و ترسیل ہوتی۔ ایک دھوم دھڑکا ہوتا۔اس پر نت نئے شعر لکھنے کی کوشش کی جاتی۔ جو شاعری سے واقف نہ ہوتے ا ن کو ہر شعر نیا لگتا۔ ”ادھر سے چاند تم دیکھو اِدھر سے چاند ہم دیکھیں۔ نگاہیں یونہی ٹکرائیں ہماری عید ہو جائے“۔ ہر تیسرے کارڈ پر کوئی نہ کوئی اسی قسم کا شعر ہوتا۔ میں نے گھر میں کہا عید کارڈ پر کالم لکھنا ہے۔ اس پر محترمہ نے چھوٹتے منہ کہہ دیا کہ جس چیز کاوجود ہی نہیں اس پر کیا لکھو گے۔ لو میں نے کہا پتا ہے مجھے کہ عید کارڈ نہیں ہیں۔ مگر جب تھے اس زمانے کی تمہاری یاداشت کیاہے۔مگر وہ تو سبزی چھیل رہی تھی۔ کہنے لگی میرے پاس بیکار باتوں کیلئے وقت نہیں ہے۔تم کافی ہو بس کالم نگاری کیلئے۔ دور دور کی باتیں پاس لانے کیلئے۔ میں سر جھٹک کر اٹھ کھڑاہوا۔ میرے دل میں اپنے زمانے کے عید کارڈوں کی بہار اپنا جوبن دکھلا رہی تھی۔ یاداشت کا اور جذبات کا دریا موجیں مار رہاتھا۔ اب تو ڈاکخانہ کے دفتر والے بھی عید کارڈوں کے جھنجھٹ سے فارغ ہو گئے ہیں۔ ان کی ڈاک کا تھیلا ہلکا ہو گیا ہے۔اتنا کہ بازاروں میں سے عید کارڈ اُٹھ گئے ہیں۔ اب تو اور ہی زمانہ ہے۔ جیب سے موبائل نکالو اور عید کارڈوں کے ڈیزائن نکالو اور عین عید کی نماز کے بعد بسم اللہ کر کے سات سمندر پار بھیج دو۔اب تو برق رفتاری نے پچھلے زمانے کو کہیں دور پیچھے چھوڑ دیا ہے۔زمانہ اتنا تیز طرار ہو چکا ہے کہ خداجانے آگے آنے والے دنوں میں کون سے اور کرشمے رونما ہو ں گے۔پہلے تو ایک روپے میں ایک پوسٹ کارڈ سائز فلمی تصویروں والا عید کارڈ ملتا تھا۔ ہم نے ڈھیروں کارڈ لا کر جمع کئے تھے۔ اتنے خوبصورت پیارے کہ کسی کو بھجوانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بس اپنے لئے سنبھال کر رکھے تھے۔ پھر اتنا بھی تھا کہ پشاور میں جو دوست رہتے ان کو ہم لوگ خود ان کے دروازے پر جا کر عید کارڈ دے کر آگے۔ مگر ہائے وہ لوگ کہاں گئے کوئی تو شہر چھوڑ گیا اور کوئی صوبے سے باہر گیا اور کوئی ملک چھوڑ گیا۔پھر کوئی تو چھوڑتے چھوڑتے دنیا ہی چھوڑ گیا۔ان کا تصور آتے ہی آنکھوں کی جھالر پر آنسو ؤں کے موتی جھلملانے لگے ہیں۔کاش وہ واپس آسکتے۔مگر ایسا تو ہوتا نہیں۔ کسی دیس میں نہیں ہوتا۔ جانے والے اپنے قدموں کے نشان چھوڑجاتے ہیں۔وہ بھی ہمارے اپنے دل پر ثبت ہو تے ہیں۔پتا نہیں عید کارڈ گئے اور کیا کیا جائے گا۔ دنیا کس کس طرح بدلے گی۔کسی کو کیا معلوم۔مگر اتنامعلوم ہے کہ جو تھا وہ نہیں رہا اورجو ہے وہ بھی تو نہیں رہے گا۔