کورونا وبا نے تہواروں کی روایتی گہماگہمیاں اور مسرت کے اظہار کی اُن سبھی صورتوں کو متاثر کیا‘ جن کا تعلق ثقافت سے ہے۔ جبری فرصت (لاک ڈاؤن) نے معاشرے کو جس محدود طرزِ زندگی کی طرف دھکیلا ہے‘ اُس کی چونکہ عادت نہیں اِس لئے اکا دکا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں لیکن مجموعی طور سے دیکھا جائے تو اِس مرتبہ عید الفطر اُداس رہی۔ گھروں میں قید رہتے ہوئے عیدالفطر منانے والوں کے تفریح کے ذرائع میں انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن سرفہرست ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا‘ جب عید حقیقی معنوں میں گہماگہمیوں کا مجموعہ ہوا کرتی تھی‘ جو بطور تہوار رسمی نہیں بلکہ اس سے جڑی ہوئی لاتعداد خوشیاں بھی منائی جاتی تھیں‘ جن کی خوشبو سے ذات اور زندگی کا ہر پہلو مہک اٹھتا تھا۔ دوستوں کو خط لکھنے سے لے کر عید کارڈ لکھ کر بھیجنے تک ہر عمل سرشاری میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ اب ہر طرح کی سہولت میسر ہے‘ ٹیکنالوجی کی رسائی بھی مہیا ہے لیکن خوشی کا احساس اتنی گہرائی سے محسوس نہیں ہوتا جس طرح ماضی میں ہوا کرتا تھا تب خوشیوں کا محور عید ِسعید ہوا کرتی تھی۔ کورونا سے محدود زندگی میں اگر چند برس قبل کے بارے سوچا جائے تو عید کے روز گھر گھر جا کر عیدی لینا‘ میٹھے سے دن کی شروعات‘ ٹیلی ویژن کے ذریعے عید کے لئے تیار کئے گئے خصوصی ڈرامے بشمول عید کی خصوصی نشریات اور اس موقع پر پاکستانی فلموں کا عید پر ریلیز ہونا‘ حتیٰ کہ ٹیلی ویژن سے بھی مختلف فلموں کا نشر کیا جانا‘ یہ سب اُن تصورات (یادوں) کا حصہ ہیں‘ جو ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں اور اب سوائے یادوں سے دل کو بہلانے کے اور کوئی صورت نہیں رہی!پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور کی بات کریں تو یہ بات ممکن ہی نہیں ہوتی تھی کہ خاص مواقعوں پر مختصر اور طویل دورانیے کے ڈرامے پیش نہ کئے جائیں۔ صرف یہ کوششیں عید تک ہی محدود نہیں ہوتی تھیں بلکہ نئے سال کی آمد‘ یومِ دفاع‘ یومِ آزادی سمیت دیگر اہم مواقعوں پر ممتاز شخصیات سے منسوب ایام کے تناظر میں بھی دستاویزی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں یوں ٹیلی ویژن تفریح کے ساتھ تعلیم کا ایک ذریعہ بھی ہوتا تھا اور اِس کی نشریات ہر عمر اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کیلئے دلچسپی کا سامان لئے ہوتی تھی۔ اسی طرح اخبارات‘ رسائل و جرائد بھی خصوصی صفحات کے ذریعے اہم مواقع کی اہمیت بیان کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن سے یومِ پاکستان کے مواقعوں پر خصوصی پریڈ بھی نشریات کا ایک اہم حصہ ہوا کرتی تھی‘ گویا تفریح میں بھی تعلیم و تربیت کا عنصر شامل ہوا کرتا تھا‘ جس سے نئی نسل کی فکری آبیاری ہوتی تھی۔ ایک لمحے کیلئے 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں نشر ہونے والے ڈراموں کو یاد کریں جن کا سلسلہ 90ء کی دہائی تک پھیلا رہا تو وہ ڈرامے اپنے ساتھ ایک عہد اور تاریخ لئے دفن ہو چکے ہیں! وارث‘ اَن کہی‘ دھواں‘ تنہائیاں‘ آنگن ٹیڑھا‘ الف نون‘ خدا کی بستی‘ جانگلوس‘ عروسہ‘ اندھیر اجالا‘ آہٹ‘ عینک والا جن‘ سونا چاندی‘ گیسٹ ہاؤس‘ آنچ‘ ہوائیں‘ شمع‘ راہیں‘ دھوپ کنارے‘ دشت‘ الفا براوؤ چارلی‘ انکل عرفی‘ ریزہ ریزہ‘ فشار‘ شب دیگ‘ خواجہ اینڈ سن‘ شہزوری‘ ہاف پلیٹ‘ من چلے کا سودا‘ سمیت کئی دیگر یادگار ڈرامے تھے بہرحال ٹیلی ویژن کی طرح فلم سازی کا شعبے بھی وبائی دور میں زوال پذیر ہے جو کبھی معاشرتی ثقافت کا اہم جزو تھا اب پہلے جیسا متحرک نہیں رہا اور اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اب موبائل فونز کی صورت تفریح کے ذرائع سمٹ کر ہاتھوں میں سمائے نظر آتے ہیں‘ جن پر ہر عمر کے بچوں کی نظریں جمی رہتی ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کبھی حسب روایت عیدیں بھی منائی جائیں گی؟ کیا ہم زندگی میں دوبارہ کبھی ان تہواروں کو پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا دیکھ سکیں گے؟ دنیا واپس اپنی موج میں لوٹ سکے گی؟ کیا ہمارے ہاں قومی ٹیلی ویژن اور فلم سازی کا شعبہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکیں گے؟ نئے ٹیلی ویژن چیلنجز کے لئے ماضی اہمیت رکھے گا؟ عید‘ ہر تہوار‘ ہر خاص دن پہلے سے زیادہ مختلف‘ پہلے سے زیادہ تنہائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور انسان کی بطور سماجی جانور کمزوری (خصوصیت) یہ ہے کہ اِس کیلئے بھوک پیاس یا آسائشوں اور بیماریوں سے زیادہ سماجی تنہائی ’جان لیوا‘ اثر رکھتی ہے۔