عرب ریاستوں کی لاپرواہی، عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے باعث اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کررہا ہے۔اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر قابض ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مرتکب ہے، وہاں یہودیوں کی غیر قانونی آبادکاری کررہا ہے اور اس قبضے اور بے دخلی کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کا اندھادھند قتل عام کررہا ہے لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں۔فلسطینیوں کی عید لہو رنگ ہوچکی ہے۔ اب تک درجنوں افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو ایک بڑا المیہ رونما ہوسکتا ہے۔امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، روس، اردن، سعودی عرب، پاکستان، ترکی، عرب لیگ، او آئی سی، اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ نے اسرائیل پر تنقید اور دونوں فریقین کو تحمل کیلئے زور دیا ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جس میں 1967 سے قبل کی سرحدیں اور القدس الشریف ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔یوں تو مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ مگر تشدد کی حالیہ لہر کا سبب مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور اسرائیل کا جبر وستم ہے۔ فلسطینی یہودیوں کی آبادکاری کو غیر قانونی اور امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جبکہ اسرائیل اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔فلسطین اسرائیل تنازعہ ایک قدیم ترین اور پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ فلسطین کا علاقہ لبنان اور مصر کے درمیان واقع ہے۔ 638ء میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس فتح ہوا 1099 میں عیسائیوں نے یہ چھین لیا مگر 1187 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے پھر فتح کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو شکست ہوئی تو 1918ء میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کیا۔ 1895ء میں صہیونیت کی تحریک شروع ہوئی اور فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1881ء میں صرف چوبیس ہزار یہودی تھے مگر اس تحریک کے بعد1917 تک یہودیوں کی تعداد یہاں سات لاکھ تک پہنچ گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیاگیا۔ پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ اردن نے غربِ اردن اور مصر نے غزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ 1956 میں پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عربوں کو شکست ہوئی۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاوہ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں جہاں اب حماس کی محدود حکومت قائم ہے۔اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ کہتا ہے وہ اب جلاوطن پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ مزید فلسطینیوں کو ان کی زمین ہتھیانے اور یہودیوں کی آبادکاری کیلئے جبری طور پر بے دخل کر رہا ہے۔ اس وقت موجودہ اسرائیل کا رقبہ تقریبا 21ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کی آبادی ترانوے لاکھ ہے‘ غربِ اْردن کا رقبہ چھ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 20 لاکھ ہے۔ غزہ کی پٹی اسرائیل کی مغربی سرحد، بحیرہ روم اور مصر میں گھری ہوئی ہے جس کا رقبہ تین سو ساٹھ مربع کلومیٹر اور آبادی 11 لاکھ ہے۔فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟بہترین، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جائیں‘ بہتر تو یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے تاہم ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے ماضی میں عالمی طاقتیں فلسطینیوں پر اسرائیلی قبضے اور ظلم وستم کو دوام اور حمایت مہیا کرتی رہی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی۔ اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، فلسطینی رقبے پر یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کرکے اسرائیل کو کئی بار اقوام متحدہ کی قراردوں کی خلاف ورزی، فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ان کی زمینیں ہتھیانے، ان کے مکانات منہدم کرنے، انہیں بے دخل کرنے اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں، پابندیوں اور سزا سے بھی بچاتا آیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم وستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے۔ دو ریاستی حل، انصاف اور پرامن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔