کنویں جتنے گہرے ہوں۔چوڑے چکلے ہوں۔ کنواں تو کنواں ہے۔اس سے دریا کہیں بہتر ہیں۔ جو رُکے نہیں ہوتے۔ چلے جا رہے ہوتے ہیں۔آہستہ سہی مگر حرکت میں ہوتے ہیں۔ اپنے ساتھ کتنے خس و خاشاک بہا کر لے جاتے ہیں۔ان تنکوں تیلوں کو کوئی نہ کوئی کنارا دیتے ہیں۔سو روانی اچھی ہے خواہ آہستہ خرام ہو۔کیونکہ کسی نہ کسی دن اپنی منزل کو جا لیتا ہے۔وہ قطرہ جو اس دریا کا حصہ بنتا ہے۔ندی نالے تیز رفتار نہیں ہوتے۔مگر کسی نہ کسی طرح نہر میں گر کر ہوتے ہوئے دریا تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔پھر دریا خود ان ندی نالو ں کو ان نہروں کے پانیوں کو ہمراہ جپھی ڈال کر آخر سمندر کا حصہ بن جاتے ہیں۔بارش کے پانی کا ایک قطرہ کوشش کے ساتھ سمندر بن جاتا ہے۔مگر اس میں ظاہر ہے کہ بہت سے مراحل آتے ہیں۔انگریزی میں کہتے ہیں کہ چائے کے کپ کو ہونٹوں تک آتے آتے بھی کئی مراحل درپیش ہوتے ہیں۔جب اس مختصر سے فاصلے کو عبور کرنا گراں ہوا تو قطرے کا زمین پر گر کر دریا تک پہنچتے پہنچتے کسی ساگر کا حصہ بن جانا تو پھر ضرورمشکل ہوگا۔سو منزل تک پہنچنے کے لئے چلنا ضرور ی ہے۔خواہ آہستہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایک نہ ایک دن منزل پر پہنچنا اسی کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے جو رکتا نہیں۔ چلتا ہے چلتا رہتا ہے۔بارش کا پانی پہاڑ پر برستا ہے۔پھر ایک آبشار کی صورت میں اکٹھا ہوکر اوپرسے گر کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔مگر ہمت نہیں ہارتا جاتا رہتا ہے۔اگلے مرحلے میں پھر سے ایک جا ہو کر رواں ہو جاتا ہے۔ پھر کسی نہ کسی دن منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنا درست نہیں۔ایک آدمی گھر سے پاؤں باہر ہی نہ نکالے بولے میں ساتھ کے شہر میں پہنچنا چاہتا ہوں تو کیسے پہنچے گا۔ وہ شہر خود اس کے گھر میں چارپائی کے پاس تو نہیں آسکتا۔جو باتیں اوپر بیان ہوئی ہیں اس میں اقبال کی شاعری کا پشتو کے اشعار کااور طارق محمود طارق کے ایک ہندکو شعر کا خلاصہ ہے۔ شاعر ہیں ان کے اپنے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔ جو حرفِ آخر نہیں ہوتے۔ مگر باتیں کام کی ہوتی ہیں۔اس سے مراد محنت ہے۔اگر طالب علم ہے تو اس کے لئے بھی یہی مشورہ ہے۔تھوڑا پڑھے مگر روز پڑھے۔امتحان کے دن آتے ہیں مہینہ پہلے اگر کتابیں جھاڑ پھونک کر اوردھول نکال کر اٹھا لے تو اس کیلئے یہ ایک بڑا پہاڑ ہوگا۔ وہ پہاڑ جس کا بوجھ اسے اٹھانا ہوگا۔اکثر طلبا یہی سوچتے ہیں کہ چلو سال بھر مزے کریں گے۔سال کے آخر جب امتحان قریب ہوگا تو کتابیں لے کر بیٹھ جائیں گے۔ درست ہے۔پھر وہ پاس بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر اچھے نمبر نہیں لے سکتے۔پھر کسی اول دوم پوزیشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ تو تھوڑا تھوڑا اور روز پڑھنا ہے۔جیسے کسی دوا کی طرح کہ جس میں دس کیپسول ہوں اور روز ایک دانہ کھانے کی ہدایت ہو۔ یہ روزانہ کا ایک کیپسول اسی میں شفا ہے۔اگر دس کے دس کا پتہ لالچ میں کہ جلد شفا یاب ہو جاؤں حلق سے نیچے اتار لیا جائے تو شفا کے بدلے الٹا موت کے منہ میں جانے والی بات ہے۔وہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی اسی لئے تو بنی ہوئی ہے۔ دونوں کے درمیان دوڑ ٹھہر جاتی ہے۔ خرگوش تو برق رفتار ہے۔ تیزی سے پلک جھپکتے میں جیت والی رسی کے پاس پہنچ کر اس کو عبور نہیں کرتا۔ وہیں سو جاتا ہے۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ کچھوا تو آہستہ آہستہ آتے آتے آئے گا۔میں تب تک نیند کر لو ں۔ مگر یہ غفلت کی نیند اس کی شکست کا باعث بن جاتی ہے۔کیونکہ وہ سوکر غافل ہو جاتا ہے۔ وہاں کچھوا آہستگی سے مگر مستقل مزاجی سے چلتاہوا وکٹری پوائنٹ کو خرگوش سے پہلے ہی کراس کر لیتا ہے۔بچوں کی کتابوں میں یہی کہانی اسی لئے دی گئی ہے کہ اس سے وہ بچے جو آج کاکام کل پر چھوڑتے ہیں۔وہ جوغفلت سے کام لیتے ہیں کہ چلو یار کل کر لیں گے۔ پھروہ جن میں مستقل مزاجی نہیں وہ مستقل بنیادوں پر مطالعہ نہیں کرتے۔وہ جو سٹڈی کا روزانہ کاکوئی ٹائم ٹیبل نہیں بناتے وہ امتحان کے اچانک سر پر آجانے سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ان کی شکست کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جو آگے جانا چاہتے ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر سارا سال ایک وقتِ مقررہ کے لئے پڑھتے ہیں۔ وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں اور پوزیشن بھی لیتے ہیں میڈل بھی انھیں کو پہنائے جاتے ہیں۔ ایک دم سے کتابیں لے کر مہینہ پہلے میز کرسی کے سامنے بیٹھ جانا درست نہیں ہے۔اس لئے کہ جیسے گولی روز تین اکٹھی نہیں کھانی بلکہ خاص ٹائم کے بعد دن میں تین بار کھانا ہے۔تب جاکر شفا ملے گی۔ کیونکہ گولیوں نے اندر اپنی جگہ بنانا ہے۔وگرنہ اس ٹائم ٹیبل سے ہٹ گئے تو الٹا شفا کے بجائے مزید اور بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔کچھوا آہستہ سہی مگر مستقل آتا رہتا ہے۔ اس خرگوش کی طرح آرام نہیں کرتا۔وہ منزل پہ پہنچ جاتا ہے۔مگر اس کے لئے کچھوے کا حرکت کرنا شرط ہے۔ آہستہ مگر چلنا اور چلتے رہنا یہی کامیاب لوگوں کا انداز ہے۔پھر کامیابی اسی صدف میں موتی کی طرح پوشیدہ ہے۔