باطل نظریات۔۔۔۔۔۔

کورونا ویکسین سے متعلق ’باطل نظریات‘ کا تعلق تعلیم کی کمی سے نہیں بلکہ شعور کی کمی سے ہے کیونکہ ویکسین کی مخالفت اُن طبقات کی طرف سے بھی سننے میں آ رہی ہے‘ جو تعلیم یافتہ ہیں جبکہ اِس سے قبل ’انسدادِ پولیو ویکسین‘ کی مخالفت ناخواندہ‘ کم تعلیم یافتہ یا پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے سننے میں آتے تھے لیکن اِس مرتبہ مختلف صورتحال یہ ہے کہ اچھے خاصے معقول‘ فیشن ایبل‘ بیرون ممالک سفر کرنے والے یعنی مالی طور پر مستحکم افراد بھی ’کورونا ویکسین‘ سے متعلق خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے ویکسین صرف اِس وجہ سے لگوائی ہے کیونکہ ایسا کرنا بیرون ملک سفر کیلئے ضروری ہے۔حکومت نے ’لیڈی ہیلتھ ورکر‘ کو نئی ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ گھر گھر جا کر ’کورونا (کوووڈ) ویکسین‘ لگانے کیلئے لوگوں کو قائل کریں اور معلومات اکٹھی کریں جیسا کہ کسی گھرانے کے کل کتنے افراد نے ویکسین لگوالی ہے؟ اور اگر گھر کے چند افراد نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی تو پھر وہ کیسے خود کو رجسٹر کر کے جلد از جلد ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ اِس جاری تجربے کے دوران ویکسین لگانے کے بارے میں عمومی آمادگی کی سطح انتہائی کم ہے اور صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اور دیگر صوبوں کے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی ویکسین کو ضروری جبکہ کورونا وبا کو زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھتے جیسا کہ بھارت کی صورتحال ہے‘ جہاں یومیہ اموات کی اوسط چار ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔پاکستان میں ویکسین کے بارے میں دو رائے (ہچکچاہٹ) کی وجہ سے ویکسینیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اب تک صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین لگ سکی ہیں اور اِس ’سست روی‘ کی بڑی وجہ ’سوشل میڈیا‘ کو قرار دیا جا رہا ہے جہاں کورونا ویکسین کے بارے میں گمراہ کن اطلاعات و نظریات اور افواہیں زیرگردش ہیں۔ کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ’حکومت اُن پر تجربہ کر رہی ہے‘ اور ویکسین لگوانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اِس کے بعد بھی کورونا ہو سکتا ہے۔ ویکسینیشن سے متعلق خدشات کا تعلق سال دوہزارگیارہ میں امریکی سی آئی اے کی جانب سے ویکسینیشن مہم کا استعمال بھی ہے جس کے ذریعے القاعدہ کے مطلوب رہنما اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کی گئی تھی۔ اگر رواں برس کے اوائل کی بات کی جائے تو پاکستان کی حکومت نے ویکسینیشن کا عمل دیر سے شروع کیا اور اس دوران ملک بھر میں مرحلہ وار ہیلتھ ورکرز سے شروع کرتے ہوئے دیگر افراد کو ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے لیکن اس دوران ویکسینیشن کے بارے میں ہچکچاہٹ میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان نے کورونا ویکسین لگوائی لیکن وہ اِس کے باوجود بھی کورونا کا شکار ہوئے‘ اِس خبر نے کورونا ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت دی حالانکہ ڈاکٹروں‘ ماہرین اور وزرأ کی جانب سے متعدد وضاحتیں دی گئیں کہ وزیرِاعظم کو ویکسین لگانے سے پہلے کورونا ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود چند لوگوں نے ویکسین کی افادیت کو ماننے سے انکار کر دیا اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات چیت کا زیادہ تر دارومدار غیر تصدیق شدہ خبروں اور افواہوں سے منسلک رہا۔پاکستان میں چین‘ روس اور یورپ سے ملنے والی ویکسین لگائی جا رہی ہے تاہم یہ ویکسین آبادی کے تناسب سے کم ہے۔ علاوہ ازیں نجی طور پر سپوتنک وی ویکسین محدود مقدار میں صرف کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں فراہم کی جا رہی ہے جبکہ فروری دوہزاراکیس سے شروع ہونے والے سرکاری ویکسینیشن پروگرام میں ستر برس سے بڑی عمر کے افراد کو کانسینو ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ ساٹھ برس سے بڑی عمر کے افراد کو چینی ساختہ سائنو فارم لگائی جا رہی ہے۔ اِسی طرح چالیس برس سے زائد عمر کے تمام افراد کیلئے بھی ویکسین کا عمل جاری ہے جبکہ تیس برس سے زائد عمر کے افراد کی ویکسینیشن کی رجسٹریشن سولہ مئی سے شروع کر دی گئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کی جانب سے چین کی ساختہ پندرہ لاکھ ویکسین مل چکی ہے لیکن مزید ویکسین ملنے کا انتظار ہے۔ حکام کو اُمید ہے کہ رواں ماہ (مئی دوہزاراکیس) کے آخر تک چین سے مزید ویکسین کی کھیپ پاکستان پہنچ جائے گی اور اس کے علاوہ جون (دوہزاراکیس) تک ویکسین کی اٹھارہ لاکھ خوراکیں ملنا متوقع ہیں۔ دیر آئد درست آئدکے مترادف فیصلہ سازوں کو احساس ہوا ہے کہ کورونا ویکسینیشن کی کامیابی کا تعلق مذہبی طبقات کے تعاون سے ہے اور اِس سلسلے میں عبادت گاہوں میں حفظان صحت اور سماجی فاصلے کا خیال رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ علمائے کرام اور مساجد کے خطیب حضرات سے ’کورونا آگاہی مہم‘ میں بالکل اُسی طرح مدد حاصل کی جا رہی ہے جیسا کہ انسداد پولیو مہم کے دوران لی گئی تھی۔ جس کے دوران صوبہ سندھ کے شہر کراچی اور خیبر پختونخوا میں علما کو شامل کیا گیا اور فتوے جاری کرائے گئے جس میں لوگوں کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی تلقین کی گئی تاہم کورونا وبا کے دوران مساجد میں سماجی دوری کا خیال اور ماسک کا لازم استعمال کرنے سے متعلق کوششیں خاطرخواہ انداز سے کامیاب نہیں ہو رہیں کیونکہ ’ایس او پیز‘ کی مخالفت کھل کر نہیں کی جا رہی لیکن اِس کے خلاف شکوک و شبہات کا اظہار کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔