مصروفیات۔ گول دائرہ۔۔۔۔

 اس گھر میں ہر چھوٹے بڑے کے پاس موبائل ہے۔کیا بچے کیا بچیاں۔ مگر ماں باپ نے انھیں یہ سہولت اس لئے دلاکر دی تاکہ جدید سائنس کے استعمال سے اپنی پڑھائی لکھا ئی کو زیادہ بہتر کریں۔مگر جہاں ایک چیز کا فائدہ ہووہاں اس کے مضر نہ سہی مگر ہلکے پھلکے نقصان تو ہوتے ہیں۔اب جونہی شیٹ پر سب کھانا کھا چکے تو اس کے بعد نمازسے فارغ ہوئے۔سو انہوں نے اپنے اپنے موبائل ہاتھ میں تھام لئے۔ ابا الگ اپنا وٹس ایپ میں مشغول ہو گئے۔ کیونکہ دوستوں یاروں رشتہ داروں کے پیغامات دیکھنا تھے۔پھر ان کے ایک ایک کر کے جواب دیناتھے۔والدہ تو کچن میں مشغول ہوگئیں۔پھر جلد ہی باورچی خانہ کی مصروفیات سے نجات حاصل کرکے وہ بھی اپنا موبائل لے کر بیٹھ گئیں۔اس وٹس ایپ نے تو دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ان کے بھائی اور بہنیں اور بھابھیاں تو اس شہر میں نہیں۔ کوئی کس ملک میں ہے اور کوئی کس شہر میں۔سو وہ ان کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوگئیں۔ موبائل نے بہت دور کے رہنے والوں کو قریب تر کر دیا ہے۔مگر خود اس گھر کے قریب قریب رہنے والوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔اس فیملی کے تمام افراد ایک دوسرے سے بیگانہ ہو کر رنگین موبائل میں یوں کھو گئے کہ جیسے قدیم ایران کا بادشاہ اپنے جامِ جمشید میں دنیا بھر کانظارہ کر رہا ہوں۔ پھر واقعی ایسا ہی تھا۔ اس گھر کے تمام اراکین اسی قسم کی مصروفیات میں مصروف تھے۔ وٹس ایپ پر کوئی اپنے لئے لیکچر ڈاؤن لوڈ کرنے میں مصروف ہے تو کوئی نئے آنے والے گانوں کو قابو میں کر کے اپنے موبائل کی گیلری میں پہنچا دینے کے درپے ہے۔ننھے میاں وہ سامنے صحن میں کرسی بچھا کر بجلی کے سوئچ بورڈ کے نیچے بیٹھے ہیں۔ ساتھ ساتھ موبائل کو بھی چارج پرلگا رکھا ہے۔پھر موبائل میں انسٹال کی ہوئی گیموں پرخود کو لگا رکھا ہے۔ ایک لحاظ سے اچھا اس لئے ہے کہ بہن بھائی ہیں آپس میں لڑنے سے یہ کام اچھا ہے۔سارا دن یہ بچہ لوگ اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ ایک ایک کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور دوسرا دوسرے کے پیچھے اسے جوابی کاروائی کے طور پر ایک چپت مارنے کے درپے ہے۔ماں بیمار ہے اوراس کے حلق سے آواز ہی نہیں نکلتی۔کیونکہ ادھر وہ چیخی وہاں اس کو درد کی شدت نے تڑپانا شروع کر دیا۔ کیا کرے کیانہ کرے۔ایک آدھ آواز دینے میں کیا حرج ہے۔باہر لاک ڈاؤن ہے۔بابا بھی بنک کے بند ہونے کی وجہ سے گھر میں ہیں۔ ان کا سکون الگ غارت ہے۔ایک آواز وہ بھی دے لیتے ہیں۔ یار آرام سے بیٹھو۔ مگر یہ شور شرابے والی پارٹی کسی کی کہاں سنتی ہے۔آخر بابا کے ہاتھ جو لگا اٹھا کر دے مارا۔چلو گھنٹہ بھر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ پھر بابا اور مما بھی پرسکون ہیں۔ مگر گھنٹہ نہیں گذراکہ بچوں کو پھر سے اپنی کارکردگی دکھلانے کاموقع آ گیا ہے۔چھوٹے کا تو موبائل چارج نہیں ہے۔ اس نے بڑھ کر امی کا موبائل اٹھا لیا۔امی چیخیں میرے موبائل کو ہاتھ مت لگانا ساری سیٹنگ تو نے پہلے ہی خراب کر رکھی ہے۔ وہ روکرکہنے لگا تو پھر میں کون سا موبائل لوں۔ اپنا لوناں۔ امی نے ایک تھپڑ کے ساتھ اس کوجواب دیا۔ مگر چھوٹے کا موبائل اس لئے چارج نہیں تھا کہ ایک تو بجلی نہ تھی دوسرا گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھا۔اب والدین بھی کیا کریں۔ اگر ان کو موبائل خرید کر نہ دلوائیں تو یہ بچے خود ماں باپ کے موبائل میں ہاتھ مارتے ہیں۔ وہاں ابا میاں ہیں انھوں نے فیس بک کھول رکھا ہے۔جہاں وہ دوستوں کی لگائی ہوئی پوسٹوں پر قہقہ مار کر ہنس رہے ہیں۔ یاروں کو پوسٹ پر اپنے کمنٹس دے رہے ہیں۔ہر پوسٹ کوالگ سے لائک کرنا ہوتا ہے۔باہر ملک سے دیورکی منگنی کی جو ویڈیو بھابھی نے بھیجی کچن میں کام کرتے ہوئے گھر کی مالکن وہ بھی ساتھ ساتھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں۔ گاہے ان کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلک جاتے ہیں۔ہائے جرمنی کی خاتون ہے اور ہم نے ابھی آنکھوں سے دیکھی ہی نہیں۔ لڑکیاں اپنی کزنوں کو اس لاک ڈاؤن کی مصیبت میں ویڈیو کال پر ہاتھ ہلا ہلاکر چیختے چلاتے جواب دے رہی ہیں۔ بس گھنٹہ بھر تو یہ عالم رہے گا۔ پھر اس کے بعد گھنٹہ دو کیلئے وقفہ آئے گا۔ یہی لوگ اپنی اپنی مصروفیات میں مصروف ہو جائیں گے۔ ابا دوستوں سے چٹ چیٹ کرنے لگ جائیں گے۔ امی جائے نما ز بچھا کر بیٹھ جائیں گی۔بچیاں الگ الگ جائے نماز پر ہوں گی۔ پھر یہی دھوم دھڑکا ہوگا۔ یہ سٹوری ہر گھر کی تو نہیں مگر شہروں میں واقع اکثر و بیشتر ہر گھرانے کی یہی سرگذشت  ہے۔جو روز اس گھر کے افراد پرطاری ہوتی ہے۔کیونکہ جہاں دفاتر بند ہوں دکانیں شٹر ڈاؤن میں ڈوب جائیں اور رشتہ داروں کے گھر آنا جانا بند ہو تو گھر کے لوگ آخر اس مصنوعی قید خانے میں کب تک آزاد رہ سکتے ہیں۔لازمی ہے کہ وہ اس قسم کی مصروفیات میں اپنے آپ کو بند کر دیں گے۔ان میں کوئی بھی گھر کے مین گیٹ سے باہر جاکر کرے کیا۔ کڑی دھوپ ہے۔پھر دکانیں بازار۔بس ایک ہو کا عالم ہے۔پولیس اور دکانداوں کے درمیان چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اب سارے شہر کو تو پکڑ کر لاک اپ میں نہیں بند کرسکتے۔جرمانہ کریں گے اور چھوڑ دیں گے۔یہی گول پہیہ گھومتا رہے گا۔