سیاست میں کسی شخصیت کے خاندانی پس منظر اور نظریاتی وابستگی جیسے سوالات کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی شخصیات کے مقام اور رتبے کا تعین کرنے میں کوتاہی ہو جاتی ہے اور اُنہیں کسی نظریئے سے جڑے عمومی تعصبات کے پلڑوں میں تول کر دیکھا جاتا ہے۔ بیگم نسیم ولی خان (پیدائش 1933ء۔ وفات سولہ مئی 2021ء) بھی ایک ایسی عہد ساز سیاسی شخصیت تھیں جن کی سیاسی خدمات اور جن کے سیاسی مقام کا تعین کرنے میں اُن کے اپنے اور اغیار یکساں ناکام رہے۔ بیگم نسیم قومی سیاست کی وہ بلند مرتبہ شخصیت تھیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپنی قیادت کا لوہا منوایا جبکہ وہ نہایت ہی مشکل دور تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور طاقت عروج پر تھی جس کے خلاف سیاسی مخالفین کو ہر محاذ پر مایوسی ہو رہی تھی۔ اُس وقت کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی مایوسی کی صورت حال تھی جس کی وجہ سے بیگم نسیم ولی خان متحرک ہوئیں اور ان کے تحریک سے قومی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ پختون روایت کے مطابق بیگم صاحبہ گھریلو خاتون تھیں اور بعض روایات کے مطابق وہ برقعہ بھی اوڑھا کرتی تھیں لیکن نیپ پر پابندی اور حیدرآباد سازش کیس میں ان کے شوہر کی گرفتاری کے بعد وہ ایک طاقت ور شخصیت کے طور پر ابھریں جس کا اُس وقت کے روایت پسند پختون معاشرے میں تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بیگم نسیم ولی خان کے سیاست میں آنے کی بڑی وجہ اُن کے سسر (ولی خان کے والد خان عبد الغفار خان عرف باچا خان) کی تعلیمات کا بھی عمل دخل تھا۔ جس کا ذکر وہ اکثر کرتیں کہ جب ولی خان کی گرفتاری کے بعد وہ اپنے سسر کے پاس پہنچیں اور درخواست کی کہ ان کی رہائی کی کوئی سبیل کی جائے تو باچا خان نے انہیں کہا کہ ”ولی خان میرا بیٹا ہے‘ وہ تو جیلوں کیلئے ہی پیدا ہوا ہے‘ تم اگر اپنے شوہر کو بچانا چاہتی ہو تو بچا لو۔“ اور یہیں سے وہ موڑ آیا جو قوم پرست خانوادے کی سیاست کا اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ ولی خان کی اسیری میں ان کی سیاست کو زندہ رکھنے والی نسیم ولی خان اور خان عبد الغفار خان کے انداز فکر کے درمیان ایک واضح خط امتیاز دکھائی دی اور نسیم ولی کی فکر کا دھارا مختلف زاویئے پر بہنے لگا جس کا اندازہ اُن واقعات کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا‘ اس سلسلے میں بیگم صاحبہ کے ایک جملے کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ان کی سیاست کی وضاحت کرتا ہے کہ ”ولی خان کے انتقال کے بعد کی بات ہے جب انتخابات میں ٹکٹوں کی الاٹمنٹ کے موقع پر کسی نے کہا کہ باچا خان بابا ہوتے تو اس موقع پر فلاں کو ٹکٹ دیتے تو اُس موقع بیگم صاحبہ نے کہا کہ ”وہ زمانہ بیت گیا‘ موجودہ زمانے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کی پارلیمانی طاقت کتنی ہے۔“ اِس دوران نسیم ولی نے کابل کا دورہ کیا جہاں ان دنوں اجمل خٹک مقیم تھے جنہوں نے اُنہیں حوصلہ دیا اور اِس سے نسیم ولی خان کو اعتماد ملا کہ وہ تن تنہا بھی بڑا سیاسی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اجمل خٹک کے ذریعے ان کے روابط اہم سیاسی شخصیات سے روابط استوار ہوئے اور یوں نسیم ولی نے 1977ء کی انتخابی مہم میں پاکستان قومی اتحاد کے زیراہتمام چھوٹے بڑے اجتماعات سے خطاب کر کے سیاسی ہلچل پیدا کر دی۔جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد بیگم نسیم ولی کی سیاسی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا اور وہ نیپ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) میں بھی فیصلہ کن پوزیشن میں آ گئیں۔ بیگم نسیم ولی کی وفات سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بند ہوا ہے۔ بیگم نسیم ولی کیلئے سیاست کبھی بھی آسان نہیں رہی اور اُن کے کثیر الجہت سیاسی کردار کے کئی ایسے پہلو ہیں جس کے باعث قومی سیاست میں انہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔