شاعری نسخہ ئ اکسیر 

  فیس بک وہ فورم ہے جہاں الگ الگ سوچ رکھنے والے کوجدا جدا فائدہ ملتا ہے۔دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔کسی کے خلاف بات کرنا ہو۔ پھرنہیں دیکھا جاتا کہ کسی کی دل آزاری ہوگی۔ جس کو برا کہہ رہے ہیں اس کے چاہنے والے اسی پلیٹ فارم پر گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ مگر اس بات میں شائبہ نہیں کہ یہ آزاد میڈیا جس پر بندہ اپنی بات کر سکتا ہے۔مگر اک ذرا احتیاط کہ بڑے کو بڑا اور چھوٹے کو چھوٹا جان کر معافی تلافی کا جذبہ دل میں موجزن ہو۔ہم تو اس حد تک ہاتھ کھینچ کر رکھتے ہیں بلکہ پاؤں بھی کھینچ لیتے ہیں۔اس گرم اور تپتی زمین پر پیر نہیں رکھتے جو کسی نے آگ سے بھڑکا دی ہو۔کون بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے کون شہد کی مکھیوں کے ساتھ چھیڑ کرے اور کون شیر کے جبڑوں کے ساتھ جان بوجھ کر کھیلے۔چونکہ فیس بک کھیل تماشے کی چیز ہے۔سو دوسروں کوپہلوانی کرتے ہوئے دیکھنا بجائے خودکھیل تماشا ہے۔ہم تواپنا مؤقف دل میں سنبھال رکھتے ہیں۔ دوسرے کی ناراضی کا ڈر ہے۔بڑے لوگ اس کھٹ پٹ اور کج بحثی سے دور رہتے ہیں۔کیونکہ اک ذرا اپنے نزدیک صحیح اور دوسرے کے نزدیک غلط رائے دی تو بس دما دم مست قلندر شروع۔پھر کسی کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کون بڑا ہے۔ بڑے بڑوں کو وہ طمانچے پڑتے ہیں کہ نانی یاد آجاتی ہے۔کیونکہ اس پلیٹ فارم پر اس وقت کسی کو کسی کی عزت عزیز نہیں ہوتی۔اس کو اس وقت اگر کچھ عزیز ہوتاہے تو وہ اس کا اپنامؤقف ہوتاہے۔وہ چونکہ اس بات سے سو فیصد راضی ہوتا ہے کہ جو میں کہہ رہاہوں وہ درست ہے۔ اس لئے وہ بحث و تکرار کے دوران میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے کو درست سامنے والے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خواہ وہ کوشش رائیگا ں چلی جائے مگر اس نے اپنی بات کو دوسرے کے سر پر ہتھوڑے کی طرح مارنا ہے۔اس کے منڈھنا ہے تھوپناہے۔خواہ دوسرا ہو یا تیسرا یا کوئی اور اس کے مؤقف کی تائید نہ کر ے۔یہ تائید و تردید کی دنیا ہے۔یہاں جو شاعری پیش کی جاتی ہے۔وہ عام طور سے پست درجے کی شاعری ہوتی ہے۔دو چار الفاظ جوڑ کر وہ اپنے تئیں سمجھ لیتے ہیں کہ میں نے شعر کہہ دیا ہے۔ کہہ دیا نہیں بلکہ شعر بنا دیا ہے۔ شعر کہنا اور بات ہے اور شعر بنانا اور ہے۔ شعر بنانا تو پائٹ فٹر والا کام ہے۔ الفاظ کی فٹنگ کو یہ لوگ شاعری قرار دیتے ہیں۔پھر دھڑلے سے فیس بک پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ شاعری تو نہیں ہوتی۔ بس کوئی اچھی بات کوئی گولڈن ورڈ کوئی اقوالِ زریں ہوتا ہے۔پھر کمال بات یہ ہے کہ تعریف کرنے والے دوست اس شعر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ شعر کیا ہے کیا اس میں شعریت ہے۔کیااس میں موسیقی کا ٹچ ہے کیا اس کے الفاظ میں سے کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات تو ظاہر نہیں ہورہی۔پھر کیا یہ شعر وزن میں ہے۔کیا اس کے ارکان پورے ہیں۔ان باتوں سے عام آدمی کو کیا لینادینا۔وہ تو بس چار الفاظ جوڑکر شعر کی فٹنگ کر لیتے ہیں۔پھر اس کے بعد وہ ہائی کلاس قسم کی تعریف کے طالب ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ شعراول تو شعر ہی نہیں ہوتا پھر اگر شعر ہو بھی تو اس کی دونوں لائنوں میں ارکان ہی پورے نہیں ہوتے۔پھر اگررکن پورے بھی ہوں اور وہ شعر ہو۔مگر اس میں شعریت جو نہیں ہوتی۔الفاظ کو جوڑ کر ارکان کو برابر کر کے ہمارے پیارے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے شعر کوجنم دیا۔پھر ارکان کے برابر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شعر کی دونوں لائنوں میں ارکان ترازو کے حساب سے برابر ہوں۔ یعنی پہلے مصرعے میں اگر چھ الفاظ ہیں تو دوسری لائن میں بھی چھ لفظ ہوں گے۔ ارکان کا مطلب لفظ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق شعر میں دیئے گئے الفاظ کی آواز اس کی ادائیگی سے ہوتا ہے۔ جسے پشتو میں سیلاب کہتے ہیں۔اس کے علاوہ جانے مانے او ر تسلیم شدہ شاعر بھی ہیں جن کی شاعری گاہے گاہے اسی پلیٹ فارم میں سامنے آتی رہتی ہے۔مزے کی شاعری ہوتی ہے۔پھر صحیح معنوں میں شاعری ہوتی ہے۔انجوائے کرتے ہیں۔ جیسے کسی نے اختصار کی حدوں کو پھلانگ کر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔وہ مستند شاعر ہوتے ہیں جن کو فن کے اساتذہ نے سند سے نوازا ہوتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی عام سا شاعر بھی اچھی اور استادانہ شاعری کرے تو اس کی بھی تعریف کرنا اس وقت لازم ہو جاتاہے۔یہاں میں کس کس کانام لکھوں۔ہماری شاعری کی آبروہیں وہ لوگ جو فرسٹ کلاس والی شاعری کرتے ہیں۔ مگر سی کلا س کی شاعری دیکھتے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ معیاری نہیں۔ میرا یہاں یہ مقصد نہیں کہ میں نئے آنے والوں کا حوصلہ پست کر رہاہوں۔ مدعا صرف یہ ہے کہ اگر انھیں شاعری کا شوق ہے تو اس کے لئے کسی استاد کا دامن تھام لیں۔ اس طرح ان کو یہ فن درست آئے گا۔ آتش کا شعر ”کم شاعری بھی نسخہ ئ  اکسیر سے نہیں۔ مستغنی ہوگیا جسے آیا یہ فن درست“۔ اسی لئے کہتے ہیں ”ادب عام آدمی کا مسئلہ نہیں“۔