بربریت بدستور جاری ۔۔۔۔

اسرائیلی بربریت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔  اِس پوری صورتحال میں امریکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کرتے ہوئے دیگر عالمی طاقتوں سمیت خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ سترہ مئی کو ’وائٹ ہاؤس‘ سے جاری ہونے والے بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن کے جنگ بندی سے متعلق اظہارخیال پر اسرائیلی وزیراعظم کے جواب سے متعلق کوئی بات نہیں کہی گئی لیکن وائٹ ہاؤس نے اِس ٹیلی فونک رابطے میں امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی حمایت کا اظہارکیا ہے اور جاری اسرائیلی بربریت کے خاتمے کیلئے مصر و دیگر فریقین کے ساتھ امریکی رابطے پر بات کی ہے۔اسرائیلی سفاکیت کے خلاف صرف مسلمان ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔ اسرائیلی فورسز کے وحشیانہ اقدامات کے خلاف مسلمان ممالک کے ساتھ دیگر ممالک میں تشویش اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی غزہ میں بڑھتی ہوئی شہادتوں پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور ان حملوں کو براہ راست ”جنگی جرائم“ قرار دیا ہے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے اسرائیلی بھی فلسطینیوں کا خونِ ناحق بہانے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔عرب ممالک میں تعاون اور نمائندہ تنظیم ’او آئی سی‘ کے حالیہ اجلاس میں پاکستان نے بھرپور شرکت کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فلسطینیوں کے حق میں ایک مہم چلاتے ہوئے ترکی کے دورے پر ہیں۔ اُن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو ہر فورم پر اٹھانا میرا فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی وزیر خارجہ سے اُن کی بات ہوچکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے بھی بات کریں گے۔ امریکہ روایات کے مطابق اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ جوبائیڈن کے حکومت میں آنے سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملنے کی امید پیدا ہوئی تھی مگر بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیلی اقدامات کو جائز قرار دے رہی ہے۔ اس کی طرف سے اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس نے فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کا اعلامیہ رکوا دیا جس پر چین کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔ چینی وزیر خارجہ نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اقوام متحدہ نے ایسے معاملات طے کرنا ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس کی طرف سے لڑائی بند کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ثالثی ہونی چاہئے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے رائے دینے کے بجائے اس دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے مطلوبہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گوئترس جسے لڑائی کہہ رہے ہیں وہ لڑائی یا جنگ نہیں‘ یہ اسرائیل کی جانب سے یک طرفہ اور بلااشتعال جارحیت ہے۔ جارح کے ساتھ اقوام عالم کو اسی طرح نمٹنا چاہئے جو اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط میں طے کیا گیا ہے۔ فلسطین میں انسانیت بلک رہی ہے۔ انسان مر رہے ہیں۔ شیرخوار بچوں تک کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیرملکی میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اِن جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کٹہرے میں کس نے لانا ہے؟ یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنا وہ کردار ادا کرنا ہوگا جس کیلئے اس کی تشکیل کی گئی ہے۔  او آئی سی مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ آج عالمی فضا فلسطینیوں کے حق میں استوار ہو رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے زیراثر ممالک اسرائیل کے ساتھ ضرور کھڑے ہیں‘ دوسری طرف چین اور روس فلسطینیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ اس صورتحال سے مسلمان ممالک کو فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی قضیئے کا مکمل علاج کرنا چاہئے۔