تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے کیلئے موجودہ دور از حد سخت اور دشوار ہے۔زندگی کے ہرشعبہ میں بے برکت فضائیں ہیں۔ مجھے ایک طالب نے کہا تو اس پر میرا دل جیسے جکڑا گیا۔واقعی اس کی بات درست ہے۔خاص طور پر طالب علموں کو پچھلے کئی سالوں سے اچھا دن دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ارشاد نے کلاس روم میں بہت خوبصورت بات کہی تھی۔ اس نے کہا سر جی ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے تعلیم کے میدان میں مشکلات بہت دیکھی ہیں۔ پھر اُس کی بات کیوں درست نہ ہوگی۔ اس لئے کہ کوروناہی کولیں۔ جو سٹوڈنٹس کورونا کی ناگہاں آفت کے برے معاشرتی اثرات کی زد میں آئے ان کی تعلیم خراب ہوگئی۔ کبھی تو کالج کھلے کبھی بند ہیں۔کبھی نئی تاریخ ملتی ہے کہ کالج کھل جائیں گے۔مگر تاریخ پہ تاریخ والی بات ہے۔ کالج کھل نہیں پاتے اور اگلی تاریخ مل جاتی ہے۔ پھر اگر کالج مہینے بھر کے لئے کھل بھی جائیں تو کالج کی زندگی میں پڑھائی لکھائی کے نظام کو استحکام حاصل ہی نہیں۔ جتنے دن کالج کھلا رہتا ہے۔ ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ اب بند ہوئے اور اب بندہوگئے۔اس نفسیاتی مسئلے میں تو طالب علموں کی کیا بات خود کالج کے اساتذہ ذہنی طور پر مضبوط نہیں رہتے۔ اچانک آوازہ ابھرتا ہے کہ سکول کالج بند ہو گئے۔ بچوں نے سکول جانا چھوڑا ہواہے۔ پھراگر سکول جائیں تو کیا جائیں گے ہفتہ دس بعد نیا آرڈر جاری ہوتا ہے۔اگرچہ کہ یہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے۔ مگر اس سے ذہنی کوفت کے جو کوڑے دماغ پر برستے ہیں ان کے درد کو برداشت کرنے میں بہت وقت گذر جاتا ہے۔ ان دنوں تو بچوں کی سرگرمیاں کافی حد تک تاراج ہو چکی ہیں۔ کیونکہ ان کی تعلیم و تربیت خرابی کاشکار ہے۔ اب وہ عادی ہو چکے ہیں کہ کتابوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ماں باپ بھی کیا کریں۔ باپ کا کاروبار متاثر ہے اور گھر میں شور شرابا ہے۔ارشاد احمد نے کہا تھا کہ جب سے ہم تعلیم کے میدان میں آئے ہم نے دہشت گردی کا زمانہ دیکھا۔ جس کی وجہ سے کالج و سکول میں تحفظ نہ ہونے کے احساس نے ہمیں دبوچ لیا تھا۔ہم سکول آتے بھی تو ہمارے ماں باپ پریشان حال رہتے۔ ہم سکول کالج کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے وقت تلاشیاں دیتے۔اب کورونا کارن ہمیں او رمسائل درپیش ہیں۔ گیٹ پر شینک پر صابن سے ہاتھ دھونا ماسک اور اس طرح کے دیگر ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے ہمارا دھیان پڑھائی کی طرف کم اور کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی طرف زیادہ رہتا ہے۔پھر اگر کورونا میں کچھ وقفہ آئے اور کالج کھل جائیں تو پڑھا ئی جو ادھوری تھی وہ ویسے کی ویسے ادھوری رہ گئی ہے۔بس امتحان کے لئے اپنی سی تیاری کرنا ہے۔کیونکہ کلاس روم میں حاضری پوری نہیں ہوتی۔ کچھ آتے ہیں اور کچھ نہیں آتے۔ پھر اس کے علاوہ بھی حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ ایک گروپ آئے اور دوسرا نہ آئے۔ آن لائن کی تعلیم سے ہمیں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہے۔کیونکہ کلاس روم میں بیٹھ کرپڑھنا اور معنی رکھتا ہے۔دہشت گردی میں جب سکولوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ہماری تعلیم اس وقت بھی بربادی کاشکار ہوئی اور ہم کو والدین سکول ہی نہ بھیجتے۔ہم سکول میں ہوتے اور وہ گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں سنتے رہتے۔کہیں کوئی حادثہ ہوتا تو وہ پریشانی کے عالم میں یہاں وہاں بھاگے پھرتے۔ہمارا تعلیمی انتظام کمزور ہے اور تعلیمی نظام اس سے زیادہ ضعیف ہے۔ بس جو ہیں وہ مال جمع کرنے کی فکر میں ہیں۔اگر ہمارے سیاستدان ہیں تو ان کو تعلیم سے زیادہ اپنی سیاست عزیز ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سامنے والے پر ہلہ بول دیتے ہیں۔زبانی کلامی اور ہاتھا پائی کے ساتھ۔اس کی باتوں میں بہت وزن تھا۔اس کی باتیں دل پر ٹھاک سے لگتی تھیں۔ کیونکہ طالب علم کا تعلق ہمارے اس معاشرے کے ساتھ ہے جو ہر طرح سے گراوٹ کا شکا ہے۔وہ اس فضا میں کیا سیکھ پائے گا۔ سٹوڈنٹس تودور دراز کے مقامات سے کالج کو آتے ہیں۔ پھر پورے صوبے کا یہی حال ہے۔بلکہ وطن کے مجموعی معاشرے میں یہی کمزوریاں ہیں۔طالب علموں کے ماں باپ اپنی جگہ پریشان ہیں اور اساتذہ اپنی جگہ حیران کہ اب ہو گا تو کیا ہوگا۔ سوچتے ہیں کہ ہمارے بس میں تو کچھ نہیں بس جو ہوگا دیکھا جائے گا۔لڑکے بالے تو چلو کچھ نہ کچھ جرأت اور حوصلہ مندی رکھتے ہیں۔مگرہماری بچیاں جو سکول کالج اور یونیورسٹیوں کے ماحول کا حصہ ہیں ان کی پریشانی کیا ہوگی۔ ان کے مسائل کیا ہیں۔ پھر ان کے ماں باپ کی ذہنی الجھنیں تو لڑکوں کے والدین سے دگنا اور تگنا ہیں۔ان کو بہت تفکرات گھیرے رکھتے ہیں۔ ان حالات میں وہ بچیاں جب تلک گھر کو لوٹ نہ آئیں ماں کا دل سولی پر لٹکا ہوتا ہے۔ جن کو سکول کالج یونیورسٹی تک جانے کیلئے گاڑیاں میسر ہیں ان کے امی ابّا تو چلو کسی قدر اطمینا ن سے ہوں گے مگر وہ جو پیدل چل کر بس میں سوار ہوتی ہیں اور کالج کے پاس جاکر اتر کر پھر پیدل چل کر کالج کے دروازے اندر داخل ہوتی ہیں۔ان بچیوں اور ان کے ماب باپ کی پریشانیاں کافی سے زیادہ ہیں۔