سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ملک میں بھجوائی جانے والی ترسیلاتِ زر رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے چوبیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس سال کے ماہ اپریل میں بھی ترسیلات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچتے ہوئے دواعشاریہ آٹھ ارب ڈالر رہیں۔ اس مالی سال کے دس مہینوں میں حاصل ہونے والی ترسیلات گزشتہ پورے مالی سال کی نسبت ایک ارب ڈالر زائد رہیں۔ گزشتہ مالی سال کے ماہ اپریل کی نسبت رواں سال کے اسی مہینے میں ترسیلات میں چھپن فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافہ کی ایک بڑی وجہ عید کے موقع پر بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں۔ مالی سال دوہزاراکیس کے تمام دس مہینوں میں ترسیلات کا حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہی رہا جس سے ملک کو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رکھنے میں مدد ملی۔ ماہرین کی طرف سے اس پیش رفت کو معیشت کے بیرونی محاذ پر سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ پر سمندر پار پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ”مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ہمارا عظیم ترین اثاثہ ہیں۔“ مالی سال دوہزاراکیس میں جولائی سے اپریل تک حاصل ہونے والی ترسیلات گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں اُنتیس فیصد زائد رہیں۔ مذکورہ دس مہینے کے دوران سب سے زیادہ رقوم سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے موصول ہوئیں۔ جولائی تا اپریل سعودی عرب سے حاصل ہونے والی ترسیلات کا کل حجم چھ اعشاریہ چار ارب ڈالر رہا جو کل ترسیلات کا چھبیس فیصد سے زائد بنتا ہے۔ سعودیہ سے موصولہ ترسیلات میں گزشتہ سال کی نسبت بیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بیرون ملک میں حاصل ہونے والی رقوم میں دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات ہیں جن کا حجم تقریباً ساڑھے آٹھ فیصد اضافہ کے ساتھ پانچ ارب ڈالر رہا۔ ترسیلات میں سب سے زیادہ اضافہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی شکل میں دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں برطانیہ سے موصولہ ترسیلات میں اٹھائیس فیصد کمی واقع ہوئی تھی لیکن رواں برس برطانیہ سے پاکستان بھیجی گئی رقوم میں اٹھاسٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح امریکہ سے حاصل ہونے والی رقوم میں اٹھاون فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس امریکہ سے آنے والی ترسیلات میں بھی اڑتالیس فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ برطانیہ اور امریکہ سے رواں مالی سال کے مذکورہ دس مہینوں کے دوران بالترتیب تین اعشاریہ تینتیس اور دو ارب ڈالر سے زائد موصول ہوئے ہیں۔گزشتہ برس برطانیہ اور امریکہ سے حاصل ہونے والی رقوم میں جو کمی واقع ہوئی تھی اس کی وجہ کورونا کے پھیلاؤسے معاشی سرگرمیوں کا متاثر ہونا تھا۔
ترسیلات ِزر کے ساتھ رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے دوران برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گزشتہ مالی سال میں جولائی یا اپریل برآمدات کا حجم اٹھارہ اعشاریہ چار ارب ڈالر تھا جو رواں سال کے اسی عرصے میں ساڑھے تیرہ فیصد اضافہ کے ساتھ بیس ارب ڈالر ہوگیا۔ مذکورہ عرصہ کے دوران برآمدات کے ساتھ ساتھ درآمدات میں بھی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ گیا۔ رواں برس کے دس ماہ میں درآمدات کا کل حجم چوالیس ارب ڈالر رہا جو گزشتہ برس کے اسی عرصہ کے مقابلے میں سترہ فیصد زیادہ ہے۔ درآمدات میں ہونے والے اس اضافہ کی وجہ سے تجارتی خسارے میں اکیس اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ترسیلات زر میں ہونے والے ریکارڈ اضافہ نے حکومت کو تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد دی۔ ترسیلات زر میں حوصلہ افزا اضافہ کی وجہ سے رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 959ملین ڈالر تھا۔ ترسیلات ِزر پاکستان جیسے ممالک کی معیشت کیلئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں اضافہ سے جہاں تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے وہیں ملک کے بہت سے اندرونی مسائل پر بھی قابو پایا جاتا ہے۔ ترسیلات میں غیر معمولی اضافہ اسی وقت متوقع ہوتا ہے جب بیرون ملک مقیم شہری اپنے ملک اور وہاں کے نظام حکومت پر اعتماد کریں۔ وزیراعظم عمران خان جس طرح سمندر پار پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملک پر اعتماد بڑھے گا اور وہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے تمام سفارت خانوں کو سمندر پار پاکستانیوں کے جائز مسائل حل کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے گلے شکوے دور ہوسکیں اور ان کے اعتماد میں اِضافہ ہو۔ ترسیلات ِزر میں اضافے کی ایک وجہ ہنڈی حوالے کے ذریعے ہونے والے غیرقانونی ترسیلات زر ہیں‘ جن پر حکومت نے بڑی حد تک قابو پا لیا ہے تاہم ابھی معیشت کو دستاویزی بنانے اور غیرقانونی ترسیلات ِزر روکنے کیلئے بہت سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔