دو ہم شکل بھائی۔۔۔۔۔۔

ان دو بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والے لطیفے اتنے ہیں کہ اگر جمع کر لئے جائیں تو پوری کتاب”دو جڑواں بھائیوں کے لطیفے“ ترتیب دی جا سکتی ہے۔میرا دعویٰ تھا کہ میں ان دونوں میں فرق کر سکتا ہوں۔کیونکہ اپنے بچپن کے یاردوست تھے۔ مگر ایک بار میں بھی دھوکا کھا گیا۔اس دن سے میں نے عوام الناس کی رائے سے اتفاق کر لیا کہ ان دونوں میں کسی کا نام لے کراس کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ان کے گھر والوں نے ان کی جدا جدا نشانیاں رکھی تھیں۔شاید ایک کے چہرے پر تل تھا۔جو بچپنے کی وجہ سے بہت باریک تھا۔ لیکن وہ دونوں بھائی اگر منہ پھیر لیتے تو ان کوان کے گھر والے بھی پہچان نہیں سکتے تھے۔ حتیٰ کہ جب یہ دونوں بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی میں پہنچے اور ان کی شادیاں ہوئیں توبھی کیا کیا لطیفے پیش آئے۔ سات آٹھ سال کے تھے تو ان کی امی ان کو اون کی سلائیوں پراپنے ہاتھ سے بنائی دو ٹوپیاں ایک جیسی پہنا دیتیں۔پھر ان دونوں کوکون الگ الگ پہچان سکتا۔وہ دونوں یوں ایک دوسرے کی تصویر بن جاتے کہ دوستوں کو بھی ان میں فرق کرنا مشکل ہوتا۔جب بڑے ہوگئے او رداڑھی مونچھ آ گئی۔ پھر صاحبِ روزگار ہوئے بچوں کے باپ بنے تب بھی لطیفوں کا سلسلہ جاری رہا۔ایک بجلی مکینک تھا اور دوسرا گھریلو تعمیر کا مستری تھا۔راستے میں ایک بھائی کو دوسرے بھائی کا گاہک ملتا۔ کہتا چلو نا یار ہمارے گھر کی مرمت کا کام کب کرو گے۔ میں تو تمہارے انتظار میں ہوں۔ اس پر وہ بھائی گاہک کو صفائیاں پیش نہ کرتا۔ کیونکہ ایک دن تو نہ تھا۔ آئے دن اس قسم کے واقعات کاہونا عام سی بات تھی۔وہ کہہ دیتا اچھا جی میں جلد آپ کی طرف آ جاؤں گا۔ پھر بھائی جب اپنے گھر پہنچتا تو دوسرے بھائی کو شکل اور نشان پتا بتلا کر پوری بات کہہ دیتا۔ اصل میں یہ جملہ کہہ کہہ کر دونوں تنگ آ چکے تھے کہ”وہ میں نہیں میرا بھائی ہے“۔ سو اس سے بہتر تھا کہ وہ خاموشی سے اگلے کی بات سن کر دوسرے بھائی کو پہنچا دیتے۔ لیکن کبھی اس موقع پر ہائی رسک بھی لینا ہوتا۔کیونکہ  وہ یہ جملہ کسی حملے میں بچاؤ کی صورت میں بھی استعمال کرلیتے۔ جوں ہی ان کو راستے میں گاہک ملتا۔ پھر بھائی دیکھتا کہ معاملہ خراب ہو جائے گا۔کیونکہ قصور تو میرا ہے۔ میں نے اس کے کام میں تاخیر کی ہے۔اس سے پہلے کہ عین سڑک پر وہ گاہک اس کے قریب پہنچ جائے۔ وہ بھائی ذہن میں ہوم ورک کر چکا ہوتا۔ جیسے ہی گاہک غصے سے بولتا تو وہ اسے یہی حملہ کہہ کر حملہ ٹال دیتا کہ جی وہ میں نہیں میرا بھائی ہے۔ پھر یہ کام آسان بھی تھا۔ قصور وار ہو کر بھی دوسرے بھائی کے سر تھوپ دینا تو اس موقع پھر ان کا محبوب حربہ تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے اس حد تک فائدہ تھا کہ گلی میں اگر ایک شرارت کرکے بھاگ جاتا۔پھر بعدمیں پکڑا جاتا تو وہاں سے جان چھڑا لیتا کہ وہ میں نہیں میرا بھائی تھا۔لیکن اس کے باوجود کبھی کبھار ایک کے حصے کی مار دوسرا بھی کھالیتا۔پھر جیسے جیسے عمر زیادہ ہوئی ایک کا وزن زیادہ ہوگیا اور گوڈوں گٹوں میں درد کے کارن اس کی چال ڈھال میں جھکاؤ آ گیااور دوسرا ویسے کا ویسا پتلا سوکھا رہا۔ سو اب ان میں لوگوں کو پہچان آسان تھی۔ مگر اب کیا فائدہ جو پتلا تھا بیمار ہو کر عین جوانی میں دنیا ہی چھوڑ گیا۔بچپن میں توعید والے دن دونوں میں سے ایک بھائی نے مسلسل تین بار انکل سے عیدی وصول کی۔انکل بھی دریا دل ہیں۔انھوں نے بھی تفتیش کرنا مناسب نہ سمجھا۔ایک بھائی گیا تو ان سے نئی نویلی کاپی کا ایک روپے کا نوٹ لے کر آیا۔انکل نے کہا دوسرے کو بھی بھیجو۔ پھر وہی بھائی دوسری بار گیا اور روپے کا نوٹ لے آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی بھائی تیسری بار گیا۔ انکل کو غصہ آیا۔کہا تم دونوں آکر دس دس روپے کے نوٹ لے جا چکے ہو۔اس نے کہا انکل میں آیاہی نہیں۔وہ تو میرا بھائی آپ سے آکر د وبار  پیسے لے گیاہے۔اس پر انکل سٹپٹائے۔خیر جیب سے روپے والی کاپی نکالی اور اسی کو تیسری بار ایک نوٹ تھما دیا۔جب ان جڑواں بھائیوں میں جس کو ابھی تک دس روپے نہیں ملے تھے وہیں کھیل کود میں مصروف تھا۔جب اس کو پتا چلاکہ پیسے مل رہے ہیں۔پھر وہ انکل کے پاس پہنچا تو وہ یہی سمجھے کہ یہ چوتھی بار آیا ہے۔سو انکل اس کو پکڑنے کیلئے لپکے مگر وہ ان کے بازو کے نیچے سے نکل گیا۔ مگر آخر تک کہتا رہا وہ میرا دوسرا بھائی تھا۔مگر انکل اس بار دھوکے میں کہاں آنے والے تھے۔ ہمارے انکل بھی کیا بیبا آدمی ہیں کیا دل ہے‘ اس وقت ہم چھوٹے ہوتے تھے۔عید آتی تو عیدی کی وصولی کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔خاص طور پر جب عید کی نماز پڑھی جاتی تو بچوں میں کوئی ایک اطلاع لے کرآتا کہ گلی کے باہر سڑک پرانکل اپنے گھر کے دروازے پر بچوں میں عیدی بانٹ رہے ہیں۔ہم دوڑکر پہنچ جاتے۔ پھر جاکر ان کے گرد منڈلاتے رہتے۔حتیٰ کہ ان کی نظر پڑتی تو بلا کر ایک ایک روپے کا نوٹ ہاتھ پررکھ دیتے۔