اس حال میں کہ اسرائیل فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے، امریکہ اسرائیل کی افسوسناک پشت پناہی کررہا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اب تک اسرائیل کے خلاف مذمتی قراداد تک پاس نہیں کرسکی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں المیہ رونما ہونے کو ہے، مسلمان ممالک کو آگے آنا چاہئے اور اتحاد اور عزم سے کام لے کر اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کو پیغام دینا چاہئے کہ بس بہت ہو چکا، مظلوم فلسطینیوں پر اب مزید ظلم روک دیا جائے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق انہیں ان کے حقوق دئیے جائیں اور ان کے علاقوں سے اسرائیل نکل جائے بصورت دیگر مسلم ممالک کے اجتماعی ردعمل کیلئے تیار رہیں۔حماس کا زیر قبضہ علاقہ غزہ پہلے ہی مصر اور اسرائیل کی ناکہ بندی کے سبب خوردو نوش، صحت عامہ اور روزگار کے سلسلے میں بڑی مشکلات کا سامنا کررہا تھا۔ اب اسرائیل کے اندھا دھند حملوں نے بدترین صورتحال پیدا کردی ہے۔ وہاں صحت اور نکاسی آب کے نظام کو نقصان پہنچا ہے، سکول بند ہوگئے اور دسیوں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ غزہ کے 17 ہسپتالوں اور کلینکوں کو نقصان پہنچا، اس کی واحد کورونا وائرس ٹیسٹ لیبارٹری تباہ ہوگئی ہے، غزہ کے اندر نکاسی کا نظام تباہ ہوگیا ہے اور گلیوں میں گندہ پانی بہہ رہا اور نکاسی آب کے وہ پائپ ٹوٹ گئے ہیں جن سے آٹھ لاکھ افراد کو پانی مل رہا تھا۔ درجنوں سکول بمباری سے متاثر اور تمام بند ہوگئے جن سے چھ لاکھ طلبا تعلیم سے محروم ہوگئے۔ تقریباً بہتر ہزار افراد پناہ کی تلاش میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اب تک 220 فلسطینی جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوچکے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ الغرض غزہ کی بیس لاکھ آبادی ایک المیہ کے دہانے پر کھڑی ہے۔فلسطینی مزاحمت کررہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں نے غزہ، مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر غزہ حملوں، اسرائیلی قبضہ، اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک، تشدد اور مقبوضہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے خلاف عام ہڑتال کی ہے۔سیکورٹی کونسل کے اب تک چار اجلاس بے نتیجہ ختم ہوچکے۔ او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قراداد پاس ہوئی لیکن اس کے باوجود کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے مطابق ایک غاصب قوت ہے امریکہ اس کی شرمناک پشت پناہی کررہا ہے۔ واضح رہے 29 نومبر1947 کو جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 منظور کی جس سے اسرائیل قائم ہوا تاہم قرارداد کے مطابق بیتْ المقدِس اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ یہی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں بھی ہوا ہے۔ اسرائیل کے مصر اردن اور شام کے ساتھ 1949 کے معاہدے کے مطابق بھی یہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 22 نومبر 1967 کو قرارداد 242 منظور کی جس میں بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ نہیں ماناگیا۔ اس طرح جنرل اسمبلی میں 4 جولائی 1967 کو قرارداد 2253 پاس ہوئی اور القدس پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا کہا گیا۔ اسی طرح 1980 میں اسرائیل نے جب بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کا ارادہ کیا تو سلامتی کونسل نے قرارداد 476 و 477 میں اس کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔دنیا میں اس وقت 57 بڑے چھوٹے مسلم ممالک ہیں۔ ان میں سے چند عرب اور غیر عرب مسلم ممالک کی فوج ساٹھ لاکھ اہلکاروں پر مشتمل ہے جبکہ اسرائیل ساڑھے 6 لاکھ کی فوج رکھتا ہے۔ اپنے ہمسایہ مسلم ممالک اور چند دیگر مسلم ممالک سے رقبہ، آبادی اور فوجی طاقت میں اسرائیل بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل بیت المقدس پر قابض ہے اور اپنا زیر قبضہ علاقہ بڑھا رہا ہے۔امریکہ اگرچہ سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو