کورونا وبائی بحران سے نمٹتے ہوئے ایک اُور بحران دستک دے رہا ہے۔ تشویشناک ہے کہ ملک بھر کے آبی ذخائر (ڈیموں) میں پانی کا ذخیرہ ایک ہفتے کی ضرورت کے مطابق رہ گیا ہے یعنی سات سے آٹھ روز کا پانی کسی بھی صورت نہ تو پن بجلی اُور نہ ہی زرعی مقاصد (خریف کی فصل) کے لئے کافی ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق ”آبی ذخائر میں دس لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی موجود ہے جو سات سے آٹھ روز کے لئے کافی ہے اور آئندہ پانی کی دستیابی کا انحصار برف پگھلنے پر ہے جبکہ سکردو میں درجہئ حرارت میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ سکردو کا فی الوقت درجہ حرارت گیارہ سے اُنیس ڈگری سنٹی گریڈ ہے جو گزشتہ سال ان دنوں میں پندرہ سے تیئس ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا تھا۔ اس طرح برف پگھلنے کی رفتار گزشتہ سال کی نسبت کم ہے۔“ پاکستان میں آبی ماہرین گزشتہ پانچ چھ سال سے پانی کی قلت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور واپڈا کے ماہرین کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں سال 2025ء تک ملک کے خشک سالی کا شکار ہونے کا ٹھوس بنیادوں پر عندیہ دیا جا چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق خشک سالی کا آغاز بلوچستان سے ہوگا جہاں لوگوں کو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا۔ گزشتہ سال دسمبر میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے بھی بالخصوص پاکستان سے متعلق چشم کشا رپورٹ جاری کی گئی جس میں آبی قلت کے بحران کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان آبی قلت کا شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر آچکا ہے جس کے باعث یہ ایتھوپیا سے بھی زیادہ خشک سالی اور بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ خشک سالی زرعی معیشت کیلئے انتہائی مہلک ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت (1947ء) میں آبی وسائل سے مالامال تھا اور یہاں پانی کی دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر تھی جو اب خطرناک حد تک کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوسک میٹر رہ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی مذکورہ رپورٹ میں اِس حقیقت کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا دریائے چناب کا پانی اپنے مصرف میں لا رہا ہے اور آبی جارحیت کے ذریعے وہ پاکستان میں وسیع زرعی تباہی پھیلانے کے درپے ہے۔ آئی ایم ایف کے بعد ”پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورس“ کی جانب سے بھی وارننگ دی جاچکی ہے کہ اگر مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی تو سال دوہزارپچیس تک ملک کو آبی خشک سالی اور قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آبی بحران متقاضی ہے کہ صوبے پانی کی صورتحال کے معمول پر آنے تک پانی کا ضیاع نہ کریں۔ عارضی انتظام کے تحت منگلا ڈیم سے سندھ کو پانی دیا جا رہا ہے جبکہ تربیلا اور منگلا ڈیم حکومت کے پانی کے اجتماعی پول ہیں اور پانی دستیاب ہونے کی صورت میں کسی بھی ڈیم سے کسی بھی صوبے کو پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو کمزور اُور غذائی عدم تحفظ سے دوچار کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اُور اِس کے لئے بھارت کا کندھا استعمال کیا جا رہا ہے جو کھلم کھلا عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اُور یقینا امریکہ اُور اسرائیل کی ایما ء پر ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کو روک رہا ہے۔ اِس سلسلے میں دریائے چناب کے بعد دریائے سندھ پر بھی شب خون مارنے اور ان پر زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان آنے والے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کئے اور اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ بھارتی سپریم کورٹ سے پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کا بھی فیصلہ لے لیا‘ جو درحقیقت پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کی سازش ہے کیا ہمارے فیصلہ سازوں کو اب بھی ہوش نہیں آئی جبکہ پاکستان آبی قلت سے پیدا ہونے والے بحران کے دہانے تک آ پہنچا ہے؟ آبادی کے تناسب سے پانی کی بڑھتی ہوئی ضرورت اُور موسمی تغیروتبدل کے ممکنہ مضمرات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر آبی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ وقت کی ضرورتہے کہ ملک میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سے متعلق اتفاق رائے پیدا کیا جائے اُور زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ رکھنے کی استعداد میں اضافہ کیا جائے‘ خود کو دشمنوں کی سازشوں اُور موسمی اثرات (تغیرات) کے رحم و کرم پر چھوڑنا دانشمندی نہیں۔