فلسطین(غزہ) میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری مظالم سیز فائر کے اعلان کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ جس کی تازہ مثال اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کرتے ہوئے وہاں توڑ پھوڑ کرنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جاری اس ظلم و بر بریت کے نتیجے میں محتاط اندازے کے مطابق پانچ سو سے زائد نہتے اور بے گناہ فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ جان بحق ہونے والوں میں اکثریت معصوم بچوں، خواتیں یا پھر ضعیف العمر افراد کی ہے۔ اسرائیلی جیٹ طیاروں‘ توپ خانے اور ٹینکوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی آبادی کو جس بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنا یاہے اسکے نتیجے میں ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کے خدشات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آنے والی تھوڑے بہت معلومات اور فوٹیج میں نظر آنے والے فلسطینیوں خاص کر بھوک اور زخموں سے چور شیر خوار بچوں کی سامنے آنے والی تصاویر دیکھنے سے انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری تباہی و بربادی اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی نے نوے کی دہائی میں سرب درندوں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس نازک موقع پر بھی تین براعظموں پر پھیلے ہوئے تیل و گیس، لوہے اور سونے جیسے بے پناہ قدرتی وسائل اور بہترین محل وقوع سے مالامال 56 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے غزہ پر جاری اسرائیل حملوں پر منعقد ہونے والے اپنے حالیہ اجلاس میں جو کاغذی موقف اپنایا یہ اسی کمزورموقف کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف اسرائیل کی جانب سے غزہ کے نہتے اور معصوم انسانوں پر تاریخ کی بدترین بمباری کی گئی ہے بلکہ عالم اسلام کی کمزوری سے شہہ پاکر اسرائیل کا سرپرست امریکہ بھی اگر ایک طرف اسرائیلی مظالم کو اس کا حق دفاع گردانتے ہوئے ان مظالم کی اعلانیہ پشت پناہی کا مرتکب ہو رہا ہے تودوسری جانب سلامتی کونسل میں اس کی جانب سے چار مرتبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کا ویٹوکیاجانا بھی اس کی اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی کا کھلا ثبوت ہے۔ آج ساٹھ ستر لاکھ آبادی کے حامل اسرائیل نے صدیوں سے عرب سرزمیں پر آباد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جسکی نہتے اور خالی ہاتھ فلسطینی تباہی و بربادی کی صورت میں بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ حیرت بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ پچھلے دس بارہ دنوں سے جاری اسرائیل ظلم و بربریت کے خلاف 22ممالک پر مشتمل عرب لیگ، چھ ممالک کی حامل خلیج تعاون کونسل اورچالیس مسلمان ممالک کے دفاع کیلئے معرض وجود میں آنے والے اسلامی اتحاد کے جانب سے بھی معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجھانے کے خلاف اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔واضح رہے کہ جاری اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سول آبادی کو نشانہ بنایاگیا ہے بلکہ ہسپتالوں،تعلیمی اداروں، مساجد حتیٰ کہ سڑکوں اور پلوں کوبھی نہیں بخشا گیا ہے جس کے باعث غزہ کی پوری پٹی جو پہلے ہی سے ایک عالمی قید خانے کا منظر پیش کررہی تھی اب کھنڈرات،چیخ وپکار،کالے دھویں اور خون آلودہ منظر پیش کررہی ہے۔اس ساری صورتحال پر سلامتی کونسل اور خاص کر امریکہ کی جانب سے جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالم کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ پوری انسانیت کیلئے ایک تکلیف دہ امر ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ترکی سمیت کئی اسلامی ممالک کی جانب سے جوتھوڑی بہت حرکت نظر آ رہی ہے خدا کرے کہ اس کے نتیجے میں اہل فلسطین کوکچھ نہ کچھ ریلیف مل سکے بصورت دیگر اسرائیل اپنے آپ کو وسعت دیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کے قیام کے جس مذموم منصوبے پر عمل پیراہے آگے جا کر اس کوروکنا نہ تو اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کیلئے ممکن ہوگا اور نہ ہی ان اسرائیلی عزائم کوناکام بنانا امت مسلمہ کے دیگر ممالک کے بس کا روگ ہوگا لہٰذا یہی وہ موقع ہے کہ اسرائیلی ظلم وبربریت اور اس کے مستقبل کے خطرناک عزائم کے خلاف ایک مضبوط بند باندھاجاسکتا ہے۔