کیا اچھا زمانہ تھا۔ایک روپے میں کیا طاقت تھی۔سکول جاتے تو روپیہ ساتھ لے جاتے۔ آدھی چھٹی میں چھولے بھی کھاتے۔ روٹی بھی ساتھ تھی۔ پھر جب مٹی کے ٹھوٹے اور ٹین کے چمچ سے کھا لیتے تو سات آنے سکوں کی صورت میں واپس بھی ملتے۔ روپے میں سولہ آنے تھے۔چونی کا الگ سکہ تھا۔جو کہیں بعد میں چل کر آیا۔ پھر اٹھنی آگئی۔ان پچیس اور پچاس پیسوں کے سکوں کے ساتھ دس پیسے کا الگ سکہ تھا۔پانچ پیسے کاالگ سکہ تھا۔ جس کو پنج پیسی کہتے۔ آج تو بچے کو دس روپے دو تو اول آپ کو بیزاری والا منہ بنا کر دیکھے گا۔ اگر گھر کا بچہ ہوا اور نیازبین ہوا تو دس روپے زمین پر پٹخ دے گا۔ کہے گامیں نہیں لیتا اور ناراض ہو جائے گا۔بچے تو نیچے سٹور والے کے پاس جائیں گے تو کم سے کم سو پچاس کے پاپڑ ٹافیاں وغیرہ لے آئیں گے۔باپ کا خرچہ اس کے علاوہ بھی کروا دیں گے۔ یہ تو ہر فیملی تک ہے کہ وہ اس موقع پر کتنا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں۔ایک روپیہ اتنا مضبوط ہوتا تھا کہ اس میں قسما قسم کے سکے موجود ہوتے۔دو آنے کا الگ سکہ ہوتا تھا۔ایک پیسے کا الگ سکہ ہوتا تھا۔ چونکہ ایک روپے میں سو پیسے ہوتے ہیں۔اس لئے اس وقت اگر کسی کی جیب میں ایک روپے کی بھان ہوتی تو سو سکوں کے وزن سے جیب بھاری ہو کر لٹک جاتی۔ایک سکہ سوراخ والا ہوتا تھا۔ کیا زمانہ تھا۔ مگر آج تو پہلے روپے کا نوٹ ہی نہیں۔پھر اگر ہو تو اس میں بر کت نہیں۔پہلے دو آنے کی ایک روٹی ملتی تھی۔ اب تو دس روپے کی الگ روٹی ہے۔پھر اسی شہر میں پندرہ روپے کی روٹی الگ بک رہی ہے اور عرصہ دراز سے فروخت ہورہی ہے۔پھر بیس والی دوسری روٹی ہے۔جس کا جو جی چاہے کر رہا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔بھلا آج کی نسل اس بات کا تصور کر سکتی ہے جو اس خاکسار نے اپنے بچپن میں بہ چشمِ خود دیکھا ہے۔پھر ہماری نسل سے پیچھے کے ہمارے بزرگوں نے اس سے بھی زیادہ سستے زمانے دیکھے ہیں۔ جب ایک روپے کے اندر ہی کلو گوشت بھی ملتا تھا اور ہر چیز خریدی جا سکتی تھی۔ چار روپے کلو چینی تو مجھے خود یاد ہے۔آٹھ روپے کی کولڈ ڈرنک کی بوتل تو ابھی کی بات ہے۔ایک روپے میں آٹھ روٹیاں۔پھر دس روپے میں نوے روٹیاں۔ ہم خود لائے ہیں جی۔ جب اتنا خرچہ کرتے کہ ایک روپے میں آٹھ روٹیاں لیتے تو دکاندار اس بات سے خوش ہو کر ایک روٹی فی روپیہ فالتو بطورچُنگا دیتا تھا۔چوک ناصر خان کے عین اس چوک میں تندور ہوتا تھا۔ جھولی میں لاتے تھے۔ شاید آٹھ دس سال کی عمر ہوگی۔ مگر آج تو بات ہی کچھ اور ہے۔ جانے ایک آدھ سال میں چیزوں کے نرخ آسمان کی طرف کہاں سے کہاں اوپر اٹھیں گے۔پھر ہم نے کہاں سے کہاں زیرِ زمین جانا ہے۔اگلی پشتیں گئیں یہ پشتیں چلی جائیں گی اور آنے والی نسلوں کی حکمرانی ہوگی۔ پھر جانے کس کی حکومت ہوگی کیا ہوگا۔یہی زمین ہوگی جو نہیں بدلے گی مگر اس پر گھومنے پھرنے والے انسان نہیں ہوں گے۔کیا سے کیا ہو جائے گا۔کاش ایک روپے میں وہ طاقت بحال ہو جائے۔روپے کی اس ناتوانی سے ہم نے انتہائی پستیوں کو چُھو لیا ہے۔اس دن 1972ء کے ایک اخبار کی پریس کٹنگ ہمارے پیارے پروفیسر سیف اللہ صاحب نے وٹس ایپ کی۔جب میں دوسری جماعت میں ایبٹ آباد کے ہائی سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔اخبار میں لکھا تھاکہ ”چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔چینی کی قیمتیں مناسب سطح پر نہ لائی گئیں تو شوگر ملوں کو قومی تحویل لے لیا جائے گا“۔ نہایت حیرانی کی بات ہے کہ اس وقت بھی چینی چوروں کا تذکرہ تھا اور آج بھی وہی چینی چور ہمارے آس پاس کے ماحول کو یہ کڑواہٹ زہر کے طور پر دے رہے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ نہ اس وقت بدلا نہ اب اس میں تبدیلی آئی ہے۔ وہی کرپشن ہے اور ہم ہیں۔چینی کے روپے دو مہنگے ہوتے ہی حکومتوں کے تختے الٹ گئے۔ مگر آج چینی کا فی کلو نرخ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ آج کیا ہے جو ایک روپے کے اندر دکان سے مل جاتاہے۔ اگر زہر لے کر کھالو کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری اور غربت کا خاتمہ بھلے نہ ہو مگر غریب مٹ جائے تو وہ زہر بھی روپے دو کا نہیں ہے۔سو بتلائیں کہ آج اگر غریب تباہ ہے تو کیا غلط ہے۔مجھے لڑکپن میں والد نے ہنڈا سی ڈی سیون ٹی موٹر سائیکل نئی نویلی لے کر دی تھی۔ جس کی قیمت بارہ ہزار تھی۔ مگر اپنی طبیعت ملاحظہ فرمائیں کہ ہم نے دو ماہ اس کو سڑکوں پر گھسیٹا اور ویسے ہی ایک بارگین کے آگے کھڑی کر کے پوچھا کہ یہ کتنے کی بک جائے گی۔ شاطر دکاندار نے موٹر سائیکل کو اتنا برا بھلا کہا۔ کہنے لگا تم نے تو اس کو برباد کر دیا ہے۔ اس کا توکباڑ میں تول میں مول ہوگا۔ میں تو اس کو آٹھ ہزار میں لوں گا۔اس نے میرا دل اتنا برا کر دیا کہ جی چاہا بائیک یہیں پھینکوں اور بغیر رقم لئے چلا جاؤں۔ خیر بیچ دی اور بعد میں جی ٹی اوبائیک سیکنڈ ہینڈ میں بارہ ہزار کی خرید لی۔اب وہ زمانے کہا ں اب تو معاملہ ہی جدا ہے۔