کورونا وبا ء میں متاثرین ایسے وائرس سے نمٹتے ہیں جو ناک اور گلے میں ہوا کے راستے یا خون کی رگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ ایسے میں فنگس کے حملے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔اس طرح کورونا وبا ء کے دوران خون کی رگوں اور خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے‘ جس کے علاج کے لئے کورٹیکو سٹیرائڈز دیئے جاتے ہیں۔ کورونا وباء سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں اکثر ذیابیطس بھی دیکھی گئی ہے۔ بھارت میں ماحول میں فنگس کے زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فنگس بھی کورونا متاثرین کو نقصان پہنچا رہا ہے۔کئی مغربی ممالک میں کورونا وبا ء سے جڑے فنگس انفیکشن کی ایک دوسری قسم ایسپر گلوسز کے بڑھتے کیسز دیکھے گئے ہیں۔ ایسے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے اور انہیں بھی کورٹیکو سٹیرائڈز دیئے جاتے ہیں۔ یہ فنگس بھی ماحول میں پائے جاتے ہیں لیکن اس کا تعلق فنگس کی ایک دوسری نسل سے ہے۔ایسپر گلوسز کو دنیا بھر میں سب سے موقع پرست فنگس سمجھا جاتا ہے۔ ایسے تجزئیات (ٹیسٹ) موجود ہیں جو فنگس انفیکشن کی نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن میوکورمائیکوسز میں ایسا نہیں ہوتا۔میوکورمائیکوسز سے متاثرہ کئی مریضوں کے لئے نتائج بہت بُرے ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا کے قریب آدھے مریض مر سکتے ہیں اور کئی کی صحت کو مستقل طور پر نقصان پہنچتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ فنگس کی نشاندہی اور علاج جلد از جلد شروع کیا جائے۔ اس میں ذیابیطس کو قابو کرنا‘ مردہ خلیوں کو نکالنا اور انٹی فنگس ادویات سے علاج ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اکثر کورونا متاثرین میں فنگس کی تشخیص تاخیر سے ہوتی ہے اور اس کے علاج تک رسائی محدود ہے۔ بھارت سے آنے والی خبروں پر پاکستان کے صحت حکام نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں صحت کے نظام پر موجودہ دباؤ سے حالات دن بہ دن خراب ہو رہے ہیں۔ فنگس انفیکشن کی روک تھام کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی‘ اس کی جلد تشخیص کے لئے بہتر ٹیسٹ‘ ذیابیطس کو قابو کرنے پر توجہ اور کورٹیکو سٹیرائڈز کے استعمال میں احتیاط لازم ہوتی ہے۔ مریضوں کو وقت پر جراحت (سرجری) کی اور انٹی فنگل علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اس
دوران اس طرح کے انفیکشن کی روک تھام کے لئے مزید تحقیق بھی درکار ہے۔اکثر ذیابیطس (شوگر) اور موٹاپے کا شکار لوگ کورونا وبا ء سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ان میں سخت علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے انہیں کورٹیکو سٹیرائڈز ملنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسے کورونا وبا ء کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کو میوکورمائیکوسز دینے کا مطلب ہے اس شخص کو میوکورمائیکوسز کا بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مارچ (دوہزاراکیس) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں میوکورمائیکوسز سے جڑے کورونا سے اکتالیس کیس سامنے آئے۔ ان میں سے ستر فیصد کا تعلق بھارت سے تھا۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق کیسز کی تعداد سرکاری سطح پر بتائے جانے والے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر اتنی حیران کن بات نہیں ہے مگر آخر یہ بلیک فنگس ہے کیا اور اس کا کورونا وبا ء سے کیا تعلق ہے؟میوکورمائیکوسز کو سائنس میں ”زگومائی کوسز‘‘بھی کہتے ہیں۔ یہ بیماری فنگس کی نسل ”میوکوریلز‘‘سے پھیلتی ہے۔ اس نسل کا فنگس ماحول میں عام پایا جاتا ہے۔ مثلاً یہ مٹی میں بھی ہوتا ہے اور پھل یا سبزی جیسے نامیاتی مادے کے زمین میں گلنے سڑنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ ”بلیک فنگس‘‘انفیکشن کورونا سے صحتیاب ہونے والوں کو کیسے اپاہج بنا رہا ہے۔ انسانوں میں بیماری پھیلانے والے یہ فنگس جسمانی درجہ حرارت اور تیزابیت کے ماحول میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی ٹشو مردہ حالت میں ہو‘ بے جان ہونے کے قریب ہو یا ذیابیطس سے متاثر ہو کر بے قابو ہو جائے۔ میوکورمائیکوسز کے فنگس کو موقع پرست سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ایسے لوگوں کو متاثر کرتا ہے جن کا مدافعتی نظام پہلے سے کمزور ہوتا ہے یا ان کا جسم میں اندرونی طور پر خلیے کمزور ہوتے ہیں۔ کورٹیکو سٹیرائڈز جیسی ادویات کے استعمال سے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے جسم میں مدافعت کا عمل کمزور ہو جاتا ہے۔ اس میں کینسر یا ٹرانسپلانٹ جیسے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جن میں مدافعتی نظام اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ کوئی معمولی عارضہ بھی جسم کو بُری طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کسی صدمے کی حالت یا سرجری کے بعد ٹشو ڈیمیج (کمزور) ہو چکا ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انسان 3 طرح میوکورمائیکوسز سے متاثر ہو سکتا ہے‘ فنگس کو ناک سے سونگھ کر‘ اسے ادویات یا خوراک میں کھا کر یا جب فنگس کسی زخم سے جسم میں داخل ہو جائے۔ اکثر فنگس ناک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ دراصل ہم روزانہ فنگس کی کئی قسموں کو سونگھ کر اپنے جسم میں داخل کر لیتے ہیں لیکن اگر ہمارا مدافعتی نظام اور پھیپھڑے صحت مند ہوں تو اس سے کسی بھی انفیکشن کو روکا جا سکتا ہے۔ جب پھیپھڑے اور مدافعتی نظام کمزور ہوں‘ جیسے کورونا وبا ء سے متاثرہ کوئی شخص‘ تو فنگس ہوا کی نالی میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہمارے جسم کے اندر خلیوں میں مداخلت کرتا ہے۔ کورونا عالمی وبا ء سے قبل بھی میوکورمائیکوسز کے بارے میں خیال تھا کہ ان کی تعداد بھارت میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے مثلاً ایک اندازے کے مطابق یہ بھارت میں ہر ایک لاکھ میں سے چودہ افراد کو متاثر کرتا ہے۔ عالمی سطح پر میوکورمائیکوسز کا پھیلاؤ آلودہ اشیا ء کی وجہ سے ہوا‘ جس سے ہسپتال‘ ادویات اور پیکج فوڈ کی صنعت متاثر ہوئی ہے مگر بھارت میں میوکورمائیکوسز کے کیسز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی وجہ آلودگی کا محض کوئی ایک ذریعہ نہیں۔ حال ہی میں کورونا وبا ء سے جڑے میوکورمائیکوسز کے مریضوں میں یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ چورانوے فیصد متاثرین ذیابیطس کا شکار تھے۔ میوکورمائیکوسز مٹی‘ خراب کھانے‘ پرندوں‘ جانوروں کے فضلے‘ تعمیراتی مقام پر پانی‘ ہوا یا نمی والی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ جہاں ذیابیطس بھی ایک اہم وجہ سمجھی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کورونا وبا ء سے متاثرین اُور بعدازاں صحت یاب ہونے والے اُن افراد کو اِس لئے بھی چہرہ ڈھانپ کر رکھنے اُور گھر میں بنی (صاف ستھری) اِشیائے خوردونوش استعمال کرنی چاہئیں تاکہ وہ بلیک فنگس اُور دیگر ایسی بیماریوں کے ممکنہ حملوں سے محفوظ رہے اُور اِس احتیاط میں ماسک پہننا احتیاطی تدابیر (SOPs) کا پہلا رکن ہے۔