پاک سعودی تعلقات

  وزیر اعظم عمران خان کے کامیاب دورہ سعودی عرب کوسیاسی مبصرین پاک سعودی تعلقات میں نئی بلندیوں سے تعبیرکر رہے ہیں۔ اس دورے کے آغاز پرسعودی عرب پہنچ کر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے نہ صرف خود وزیر اعظم پاکستان کا استقبال کیابلکہ اس تین روزہ دورے کے دوران دونوں ملکوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔ ان میں اہم ترین معاہدہ پاکستانی وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی مشترکہ قیادت میں سعودی پاکستان سپریم رابطہ کونسل کا قیام ہے۔ عمران خان کے اس دورے کے بعد ماہرین یہ امکان ظاہرکررہے ہیں کہ اس دورے کے نتیجے میں پاک سعودی دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم اور وسیع کرنے کے واضح امکانات پیداہوگئے ہیں جس سے اگر ایک طرف پاکستان کواپنی بگڑتی ہوئی معیشت کو کسی حد تک سنبھالنے میں مدد مل سکتی ہے تودوسری جانب یہ تعلقات مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سعودی عرب کی بھی ضرورت ہیں کیونکہ اسے بھی خطے اور عالمی سطح پر نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص کر جب سے نئے امریکی صدر جو بائیڈن برسراقتدار آئے ہیں تب سے سعودی عرب کو امریکہ کی ویسی غیر مشروط حمایت حاصل نہیں رہی جو اس سے پہلے دیکھنے میں آرہی تھی۔ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے مارچ میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کی خفیہ امریکی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن رپورٹ کی اشاعت سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں پیدا ہونے والی دوری کوہرکوئی محسوس کرسکتاہے۔ تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک بار پھردوستی کاہاتھ بڑھانے کی سعودی حکمت عملی اصل میں ان تبدیل شدہ حالات کا اثرہے جن کاتذکرہ درج بالا سطور میں کیاگیا ہے۔بہتر تعلقات دونوں دوست ممالک کے یقیناً وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس ضمن میں کم از کم پاکستان کے آپشنز بہت واضح ہیں کیونکہ وہ کسی بھی صورت سعودی مالی امداد اور سرمایہ کاری سے دست کش ہونے کارسک نہیں لیناچاہے گا۔ اسی طرح پاکستانی حکومت سعودی عرب میں کام کرنے والے تیس لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے روزگار کی ضمانت کے علاوہ یہاں روزگار کے دستیاب دیگر مواقع میں بھی مزید پاکستانی ہنرمندوں کی کھپت چاہے گی۔ پاکستان سی پیک منصوبہ خاص کر گوادر میں عالمی معیار کی آئل ریفائنری کے قیام میں بھی سعودی سرمایہ کاری کی نہ صرف امید کرتا ہے بلکہ اسے ایک مثبت اور خوش آئند پیش رفت بھی سمجھاجائے گا۔واضح رہے کہ عالم اسلام میں پاکستان کااسلامی نظریئے کی بنیاد پرایک قائدانہ کردار ہے جس کواگر کوئی گھٹانا بھی چاہے تو نہیں گھٹا سکتا لہٰذا دوست ممالک کو پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑتا ہے اور پاکستان ہمیشہ ان ہاتھوں کوتھامنے میں نہ تو تامل سے کام لیتا ہے اور نہ ہی ان مواقع پر کسی مصلحت کو آڑے آنے دیتا ہے دراصل پاکستان کا یہی وہ نظریاتی کردار ہے جو اسے اسلامی ممالک میں نمایاں اور ممتاز بناتا ہے‘پاکستان نے آج تک کسی بھی اسلامی مملکت کو نہ تو کبھی کوئی دھوکہ دیا ہے اور نہ ہی کبھی انہیں کسی مشکل گھڑی میں تنہا چھوڑا ہے۔حرف آخر یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کے لیڈروں کا مل بیٹھنا اور مسائل پر بات چیت کرنا جہاں ان دونوں دیرینہ دوست ممالک کی ضرورت ہے وہاں یہ روابط مشرق وسطیٰ کے دن بدن گھمبیر ہوتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔