افغانستان میں ہمسایہ ممالک اور عالمی کی دلچسپی کا موازنہ کیا جائے تو ’مفادات کی اِس دوڑ میں‘ پاکستان اور دیگر سبھی ممالک کے قول و فعل میں فرق یہ ہے کہ پاکستان دائمی امن چاہتا ہے جبکہ دیگر سبھی ممالک کو افغان سرزمین کی ضرورت اور افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال اِسلئے چاہئے تاکہ وہ غیرریاستی عناصر کی پشت پناہی‘ اُن کی جنگی تربیت اور دہشت گردی کی معاونت کے ذریعے تخریب کارانہ اہداف حاصل کر سکیں۔ فی الوقت امریکہ افواج افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے فروری دوہزاربیس میں طالبان کیساتھ ہوئے ایک تحریری معاہدے کا نتیجہ ہے اور اِس فوجی انخلا ئکا باضابطہ اعلان اپریل دو ہزار اکیس میں کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ”امریکی فوجی گیارہ ستمبرتک وطن واپس آجائینگے۔“ ذہن نشین رہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ امریکہ کا انخلا ئ افغانستان میں قیام امن کی ضمانت جبکہ خطے پر بھی اثرات مرتب کریگا اور وہ سبھی طاقتیں جنہیں افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن سے سروکار نہیں چاہتی ہیں کہ امریکہ کی موجودگی برقرار رہے۔ اِس سلسلے میں بھارت کے خدشات مختلف ذرائع سے سننے میں آ رہے ہیں جو افغانستان میں سیاسی عدم استحکام‘ طالبان کے دوبارہ عروج اور ان سب کے درمیان پاکستان اور چین کے کردار سے متعلق ہیں۔ بھارت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کابل میں پاکستان کی بڑھتی مداخلت سے افغانستان میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ جائے گا جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی کوششوں ہی سے افغانستان میں قیام امن کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن دکھائی دے رہے ہیں اور ایک ایسی طویل جنگ کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے جس نے سوائے تباہی اور بربادی کے افغانستان کو کچھ نہیں دیا اور امریکہ افواج کے انخلأ کے بعد بھارت افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنیکی کوشش کر رہا ہے جس میں سوشل میڈیا کے ذریعے افغان عوام کو گمراہ کرنا بھی شامل ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں جنرل بپن راوت جب بھارتی بری فوج کے سربراہ تھے تو انہوں نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت طالبان کیساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات نہ رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ بھارت طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے گریز کرتا رہا لیکن افغانستان کے بارے میں ماسکو امن کانفرنس میں بھارت نے غیر سرکاری ٹیم بھیجی۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور وہاں کی سیاست میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے جو مستقبل میں بھی یقینی دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ پاکستان کی جغرافیائی‘ مذہبی اور نسلی قربت ہے اور تاریخ رہی ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی افغانستان کی سرزمین اور وسائل کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ نہ ہی پاکستان ایسی مہم جوئی کا متحمل ہو سکتا ہے‘ پاکستان چین کے ساتھ خوابوں کے اُس منصوبے کا حصہ ہے جسے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کہتے ہیں اور اِسے افغانستان تک پھیلایا جا سکتا ہے‘ جو امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کیلئے اصل پریشانی ہے اور چین ہی کا راستہ روکنے کیلئے وہ افغانستان میں قیام امن نہیں چاہتے کیونکہ افغانستان کے پاس ایک کھرب ڈالر کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔